کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 61
دار ہے یامعاف کردے (بطورِ احسان کے) تو اس طرح خلع ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی اکثر و بیشتر مردوں کا معاملہ شریعت ِاِسلامیہ کی ہدایات کے خلاف ہی ہوتا ہے بلکہ بہت سے جامد فقہاء و علماء عورت کے اس حق خلع ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون،حالانکہ یہ قرآنِ کریم اور اَحادیث ِصحیحہ و قویہ کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔ اکثر مرد عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجتاً معاملہ عدالت میں لے جانا پڑتاہے اور فریقین عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں ،بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باوجود عدالت کے بار بار سمن جاری کرنے کے خاوند عدالت ہی میں حاضر نہیں ہوتا، بالآخر عدالت یک طرفہ فیصلے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ خلع کی ڈگری جاری کرکے عورت کی گلو خلاصی کراتی ہے۔یہاں بھی جامد فقہا یہ موشگافی کرتے ہیں (اللہ ان کو ہدایت دے) کہ خاوند کے طلاق دیئے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ کیا یہ مفتی حضرات یہ چاہتے ہیں کہ ایسی عورت یوں ہی بے یاروومدد گار بیٹھی خون کے آنسو روتی رہے اور کہیں سے اس کی داد رَسی نہ ہو۔ بہرحال فاضل عدالت کے سوال کا جواب یہ ہے کہ عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔ سوال3: کیا ایک مجلس کی تین طلاق کو تمام حالات اور بہر صورت تین ہی تصور کیا جائیگا؟ جواب:بلا شبہ مذاہب ِاَربعہ کے فقہا اسے تین طلاقیں ہی شمار کرتے ہیں ، لیکن اس پر اِجماع نہیں ہے اور نہ مذاہب ِاَربعہ کا اتفاق اجماع کے مترادف ہے جیسا کہ بعض لوگ یہ دونوں دعوے کرتے ہیں ۔