کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 60
یا پھربے غیرتی اور لعنتی فعل حلالہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ حالانکہ بیک وقت تین طلاقیں دینا بالاتفاق یکسر ناجائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا ہے اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔ بہرحال بات یہ ہورہی تھی کہ مرد کو طلاق دینے کا بلاشبہ مکمل اختیار حاصل ہے جو شریعت اسلامیہ نے اسے عطا کیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں مرد اپنا یہ حق طلاق غیر شرعی، غیر دانش مندانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں جس سے بے شمار گھر برباد ہورہے ہیں اور یہ طریقہ متعدد خرابیوں کا باعث بن رہا ہے۔ چندسال قبل اَخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش اس سلسلے میں شائع ہوئی تھی جس میں بیک وقت تین طلاقوں کو جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یہ سفارش بڑی اہم تھی اور ہے، کاش اس پر کوئی قانون سازی ہوسکے اور اس میں ان وکیلوں اور عرضی نویسوں کو بھی قابل سزا قرار دیا جائے جو بیک وقت تین طلاقیں لکھ کر عوام کو دیتے ہیں ۔ سوال2: کیا بیوی کو حاصل اختیار، بابت خلع بواسطہ قاضی، محدود اور خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے ؟ جواب:اس سوال کا جواب دینے سے قبل خلع کی حقیقت بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ خلع وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔ یہ معاملہ اگر گھر ہی کے اندر طے پاجاتا ہے اور خاوند یہ محسوس کرتے ہوئے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں خوشگوار تعلقات، جو نکاح کا اصل مقصد ہیں ، قائم نہیں رہ سکتے تووہ عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم کرکے طلاق دے دے اور حق مہر واپس لے لے جو وہ شرعاً لینے کا حق