کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 6
اِطاعت شعاروں کی سرفرازی، ظالموں کی محرومی پس اس مقدس دعا کی قبولیت نے اُمت ِمسلمہ کو بھی قائم کیا، اور دنیا کے تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت کے لیے سلسلۂ ابراہیمی کے آخری رسول کوبھی مبعوث کیا، نیز جو امامت و پیشوائی اور خلافت فی الارض حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو دی گئی تھی، اس کی وراثت ان کی ذریت و نسل ٹھہرائی گئی۔ البتہ بموجب اپنے عہد کے ظالموں کو اس سے محروم کردیا گیا۔ اس نسل کے جو لوگ اپنے نفس و روح کے لیے ظالم ہوئے اور اللہ کے مقدس نوشتوں کی اطاعت سے سرکشی کی، ان سے وہ امامتِ موعودہ بھی چھین لی گئی اور خلافت ِ موہوبہ سے بھی محروم کردیئے گئے کہ ﴿ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ﴾(البقرۃ:۱۲۴) ﴿ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ ﴾ ’’پھران کے بعد وہ لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے صلوٰۃِ الٰہی کو ترک کردیا اور اپنی نفسانی خواہشوں کے بندے ہوگئے۔‘‘ اقبال مندی اور تصویر نامرادی یہ دعاؤں کا وعدہ تھا جس کا ظہور ہماری اقبال مندی و کامرانی کی تاریخ ہے اور اسی طرح یہ دعاؤں ہی کی ایک وعید بھی تھی جس کی سزائیں اور محرومیاں ہماری برگشتگی اور درماندگیوں کا ماتم ہیں ۔ وہ ہم ہی تھے، جو ﴿ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾کے وارث ٹھہرائے گئے تھے اور ہم ہی ہیں جو آج ﴿لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ﴾ کی تصویر نامراد ہیں ۔ ﴿ ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ﴾ (آلِ عمران:۱۸۲) ’’یہ سب کچھ ان اعمال کانتیجہ ہے جو خود انہوں نے اختیار کئے، ورنہ اللہ کریم تو اپنے بندوں کے لیے کبھی بھی ظالم نہیں ہوسکتا۔‘‘ اِجتماع لاہوتی کاظہور پس دعاؤں کا یہ اجتماعِ لاہوتی، اُمتِ مسلمہ کا یہ مجمع مبارک، اور روحانیتِ مقدسۂ ابراہیمیہ کا یہ مظہر عظیم و جلیل، قریب ہے کہ اسی بیابانِ حجاز میں ظہور کرے جہاں ربِّ ابراہیم و محمد (علیہم السلام) نے امامت و خلافت الٰہی کے لیے اوّلین دعا کو سنا اور پھر ہمیشہ دعاؤں کے سننے اور