کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 59
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ مرد جہالت کی وجہ سے طلاق دینے کا صحیح اور شرعی طریقہ بھی اختیار نہیں کرتے،جو یہ ہے کہ نباہ کی ساری صورتیں اختیار کرنے کے بعد اگر نباہ ناممکن ہوجائے اور جدائی کے بغیر چارہ نہ ہو تو مرد عورت کے حیض سے پاک ہونے کے بعد اس سے صحبت نہ کرے اور حالت ِطہر میں اسے ایک طلاق دے دے، طلاق کی عدت تین حیض (یا تین مہینے) ہیں ۔ ان ایام میں عورت کے لیے حکم ہے کہ اس کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ (سورۃ الطّلاق) تاکہ اس دوران میں شاید اللہ تعالیٰ صلح ورجوع کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ اگر صلح کی صورت نہیں بنتی اور عدت گزر جاتی ہے تو اب عورت اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے گھر چلی جائے، عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اب کوئی تعلق خاوند سے باقی نہیں رہا، اس لیے خاوند کے گھر رہنے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اس طریقۂ طلاق میں جو احسن اور شرعی طریقہ ہے، اس کے بہت سے فوائد ہیں : ٭ ہوسکتا ہے طلاق دینے کے بعد خاوند کا دل پسیج جائے، یاتنہائی کا احساس اسے پریشان کرے، یابچوں کے مستقبل کا اِحساس اس کے اندر اپنے فیصلے پرنظرثانی کا احساس پیدا کردے، یا گھریلو اُمور و معاملات کی دشواریاں اس کو سوچنے پر مجبور کردیں ، وغیرہ وغیرہ ٭ اس قسم کی تمام صورتوں میں تمام مکاتب ِفکر کے نزدیک بالاتفاق عدت کے اندر رجو ع کرنا اور عدت گزر جانے کی صورت میں بذریعۂ نکاح جدید دوبارہ تعلق بحال کرنا جائز ہے۔ کسی اور موقع پر اگر وہ پھر طلاق دے دے گا، بشرطیکہ ایک طلاق دے گا، تو پھر بھی بالاتفاق عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے پر نکاحِ جدید کرنا جائز ہوگا۔ ٭ لیکن اس احسن اور شرعی طریقے کے بجائے، ذرا ذرا سے اشتعال اور معمولی معمولی جھگڑوں پربیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں ، پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے یا بچوں کے مستقبل کا معاملہ سامنے آتا ہے، یا تنہائی کا احساس ستاتا ہے یا بیوی کا پیار اسے یاد آتا ہے تو پھرندامت کے آنسو بہاتا ہے اور علما کے پیچھے پھرتا ہے۔ اَب جن کے دلوں کو تقلیدی جمود نے پتھروں میں تبدیل کردیا ہوا ہے، ان کو ان گھروں کے اُجڑنے کا، بچوں کا مستقبل برباد ہونے اور دیگر معاشرتی قباحتوں اور خرابیوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور وہ ان کی طرف رجوع کرنے والوں کویہی کہتے ہیں : ’’اب کیا ہوت، جب چُگ گئیں چڑیاں کھیت‘‘