کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 58
’’اور تم ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو، پھر اگر تم ان کو ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی ڈال دے۔‘‘ اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا: ((لا یضرک مؤمن مؤمنۃ،إن کرہ عنھا خُلقًا رضي منھا آخر)) ’’کوئی مؤمن مرد (شوہر)کسی مؤمن عورت(بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۴۶۷) ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((واستوصوا بالنساء خیرًا، فإنَّ المرأۃ خلقت من ضلع،وإن أعوج شيئٌ في الضلع أعلاہ، إن ذھبت تقیمہ کسرتہ وإن ترکتہ لم یزل أعوج، استوصوا بالنساء خیرًا)) (صحیح مسلم: ۱۴۶۶) ’’تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو۔ اس لیے کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے (لیکن سیدھا نہیں کرسکو گے) اور اگر تم اِسے چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھا ہی رہے گا (یعنی عورت کی فطری کجی کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لیے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے) اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔‘‘ (اسکے ساتھ نباہ کرنے کا یہی طریقہ ہے) عورت کے ساتھ نباہ کرنے کے دو اہم اُصول ،مذکورہ دو حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں : 1. اس میں جوخوبیاں ہیں ، ان پرنظر رکھو اور کوتاہیوں کو نظر انداز کردو۔ 2. مرد کے مقابلے میں عورت جسمانی لحاظ سے بھی کمزور ہے اور عقلی و ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی فرو تر۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت کی کوتاہیوں پر صبر و ضبط اور حوصلہ و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ مردانگی و فرزانگی کے زعم میں عورت کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ عورت تو سیدھی نہیں ہوسکے گی البتہ گھر کے اُجڑنے تک نوبت پہنچ جائے گی۔ بدقسمتی سے عام مسلمانوں میں اِسلامی تعلیمات کا صحیح شعور نہیں ہے، اس لیے ان تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ و اِحساس بھی نہیں ہے اور یوں ایسے گھر امن و سکون کا گہوارہ ہونے کے بجائے ، جہنم کدے بنے ہوئے ہیں ۔