کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 56
بدعائھم ۔۔۔ (صحیح بخاری:۹۷۱) ’’ حتیٰ کہ ہم حیض والیوں کو بھی عیدگاہ کی طرف نکالیں اور وہ لوگوں کے پیچھے رہیں ان کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں ۔‘‘ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایسی سنت جو اَب متروک ہوتی جا رہی ہے کا احیا کریں ، وگرنہ قریب ہے کہ یہ سنت جس پرسلف صالحین کاربند تھے، اہل خیر و اصلاح کو بھی بھلا دی جائے۔ تکبیر دو طرح ہے : 1.مطلق 2.مقید اللجنۃ الدائمۃ للإفتائ کے ایک فتویٰ میں اس کی صراحت یوں کی گئی ہے: ’’عیدالاضحی میں تکبیر مطلق اور تکبیر مقید دونوں مشروع ہیں ۔ ذی الحجہ کے مہینہ کے شروع سے ایامِ تشریق کے آخر تک تکبیروں کو تکبیر مطلق کہتے ہیں جبکہ تکبیر مقید یہ ہے کہ عرفہ کے دن صبح کی نماز کے بعد سے لے کر ایامِ تشریق کے آخری دن عصر تک فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہی جائیں ۔ اس عمل کی مشروعیت پر اجماع اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل دلیل ہے۔‘‘(۱۰/۳۱۷ ) تکبیرات کے الفاظ 1. اﷲ أکبر، اﷲ أکبر،اﷲ أکبر کبیرًا (بیہقی:۳/۳۱۶) 2. اﷲ أکبرکبیرا، اﷲ أکبرکبیرا،اﷲ أکبروأجل،اﷲ أکبروﷲ الحمد ( مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۱۶۷) 3. اﷲ أکبر،اﷲ أکبر،لا الہ إلا اﷲ واﷲ أکبر،اﷲ أکبر وﷲ الحمد (ایضاً) عید کی نماز اَدا کرنا اسی عشرہ کے آخری دن عید الاضحی ہوتی ہے۔ عید الاضحی کی نماز کے لیے بغیر کچھ کھائے پیئے تکبیریں پڑھتے ہوئے عید گاہ کی طرف جانا سنت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ کر قربانی کرتے اور اس کا گوشت کھاتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اَیام سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین