کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 55
کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے۔‘‘ 4.حج و عمرہ کی ادائیگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((والحج المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنۃ))(صحیح بخاری:۷۷۶) ’’حج مبرور کی جزا تو صرف جنت ہے۔‘‘ اور فرمایا:((من حج ھذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ)) ’’جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بے ہودگی و فسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۸۲۰) 5.تکبیر، تہلیل اورتحمید ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِن دِنوں میں کثرت کے ساتھ تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ’’کان ابن عمر وأبوھریرۃ یخرجان إلی السوق في أیام العشر یکبِّران ویکبر الناس بتکبیرھما‘‘ (صحیح بخاری قبل حدیث ۹۶۹) ’’حضرت عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ’’وکان عمر یکبر في قبتہ بمنی فیسمعہ أھل المسجد فیکبرون ویکبر أھل الأسوق حتی ترتجَّ منٰی تکبیرا‘‘ (صحیح بخاری قبل حدیث ۹۷۰) ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیریں بلند کرتے جسے مسجد کے لوگ سنتے اور تکبیریں کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہناشروع کردیتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیروں سے گونج اٹھتا۔‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنہ اِن دِنوں میں منیٰ میں تکبیریں کہتے اور ان کی تکبیریں کہنے کا یہ سلسلہ نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں ، مجلس میں اور چلتے پھرتے، سارے دِنوں میں جاری رہتا۔ مردوں کے لئے اونچی آواز میں تکبیریں کہنا مستحب ہے، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے جبکہ عورتیں یہ تکبیرات پست آواز میں کہیں ۔ اُمّ عطیہ فرماتی ہیں : ۔۔۔حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم ویدعون