کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 51
تنبیہ2:بعض مدلسین سے ان کے مخصوص شاگردوں کی معنعن روایت سماع پرمحمول کی جاتی ہے۔جس طرح امام شعبہ کی قتادۃ بن دعامہ سے۔ ( مسند ابی عوانہ:۲/۳۸) خلاصہ ہماری اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں جس راوی نے بھی زندگی میں ایک بار تدلیس کی یا کسی حدیث میں تدلیس ثابت ہوگئی تو اس کی عنعنہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، یہی موقف خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا ہے۔ مگر یہ موقف ناقدین فن کے موقف کے برعکس ہے۔اس لیے مرجوح ہے، کیونکہ: 1. محدثین کے ہاں تدلیس کی متعدد صورتیں ہیں جس کے متعدد احکام ہیں ۔ 2. مدلسین کی طبقاتی تقسیم اس کی مؤید ہے۔ 3. تدلیس کی کمی وزیاتی کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔ 4. ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں ۔ 5. مدلس راوی کسی ایسے شیخ سے عنعنہ سے بیان کرے جس سے اس کی صحبت معروف ہو تو اسے سماع پر محمول کیا جائے گا۔ 6. جو مدلس راوی مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے روایت سماع پر محمول قرار دی جائے گی۔ 7. اگر کثیر التدلیس مدلس روایت کو عنعنہ سے بیان کرے تو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ محدثین بعض کثیر التدلیس مدلسین کی عنعنہ کو بھی قبول کرتے ہیں جب اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔ 8. جس مدلس کی روایت میں تدلیس ہوگی تو وہ قطعی طور پرناقابل قبول ہوگی۔ اس نکتہ پرجمہور محدثین متفق ہیں ۔خواہ وہ مدلس قلیل التدلیس ہو، صرف ثقات یا مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرنے والا ہو، وغیرہ یاد رہے کہ تدلیس کے شک کااِرتفاع صراحتِ سماع سے زائل ہوجائے گایامتابع یاشاہد تدلیس کے شبہ کو زائل کرے گا۔یہی متقدمین ومتاخرین کا منہج ہے جس پرانکے اقوال اور تعاملات شاہدہیں ۔