کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 49
لابن أبی خیثمۃ :ص۱۵۷ تحت رقم:۳۰۸) بلکہ عطاء سے روایت کرنے میں یہ أثبت الناس ہیں ۔ (التاریخ یحییٰ بن معین: ۳/۱۰۱ فقرہ:۴۱۷۔ روایۃ الدوري، مزید دیکھئے: معرفۃ الرجال لابن معین: رقم۵۵۴، ۱۴۴۷۔ روایہ ابن محرز) امام احمد رحمہ اللہ نے ابن ابی رباح سے روایت کرنے میں عمرو بن دینار کو ابن جریج پرمقدم کیا ہے۔ جیسا کہ ان کے بیٹے امام عبداللہ (العلل و معرفۃ الرجال: ج۲ ص۴۹۶ فقرہ :۳۲۷۲) اور شاگرد امام میمونی رحمہ اللہ [العلل ومعرفۃ الرجال:ص۲۵۰ فقرہ:۵۰۵] اور صاحب السنن امام ابوداؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ (سؤالات أبي داؤد للامام احمد:ص۲۲۹، فقرہ۲۱۴) گویا امام احمد رحمہ اللہ کے ہاں عمرو بن دینار اور ابن جریج دونوں ہی عطا بن ابی رباح کے اخص شاگرد ہیں ۔اس کے سبب کے بارے میں خود ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے عطا کے ساتھ ستر برس کا طویل عرصہ گزارا۔(تہذیب التہذیب لابن حجر:۶/۴۰۴،التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمۃ:ص۱۵۲ تحت رقم۲۹۸) میں ابن جریج کا قول مذکور ہے کہ میں نے حضرت عطا کی بائیں جانب بیٹھ کر بیس برس تک زانوے تلمذ تہہ کیا۔ حالانکہ ابن جریج زبردست مدلس ہیں ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اُنہیں مدلسین کے تیسرے طبقے میں ذکر کیا ہے۔ (طبقات المدلسین :ص۵۵،۵۶۔الظفر المبین) ان کے بارے میں محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں : (معجم المدلسین للشیخ محمد طلعت:ص۳۱۱ تا۳۲۰، بھجۃ المنتفح للشیخ أبي عبیدہ: ص۴۱۶- ۴۲۰) مگر اس کے باوجود امام حمیدی رحمہ اللہ ابن جریج عن عطا کو سماع پرمحمول کررہے ہیں جو ہمارے دعویٰ کی دلیل ہے۔ دوسری مثال:امام حمیدی رحمہ اللہ نے دوسری مثال ہشام بن عروۃ عن ابیہ کی بیان کی ہے۔ ہشام کو حافظ ابن حجرنے مدلسین کے پہلے طبقے میں شمار کیا ہے یعنی جن کی تدلیس نادر ہوتی ہے۔(طبقات المدلسین لابن حجر:ص۳۰،ترجمہ۳۰)مگر راجح قول کے مطابق وہ مدلس نہیں ہیں ۔(التنکیل للمعلمی:ج۱ص۵۰۳) عدمِ نشاط کی وجہ سے کبھی کبھار اپنے والد محترم سے ارسال کرلیا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو: