کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 48
گویا جو حضرات ہر مدلس کا عنعنہ کو ردّ کرتے ہیں ، ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ ان کے موقف کے خلاف پانچویں دلیل پیش خدمت ہے۔ پانچویں دلیل:طویل رفاقت کی تاثیر جو مدلس راوی کسی استاد کے ساتھ اتنا طویل زمانہ گزارے جس میں وہ اس کی تقریباً سبھی مرویات سماعت کرلے، اگر کچھ مرویات رہ بھی جائیں اور وہ انتہائی تھوڑی مقدار میں ہوں ۔ ایسے مدلس کی ایسے شیخ سے تدلیس انتہائی نادر بلکہ کالمعدوم ہوتی ہے۔ کیونکہ عام طور پر ایسی صورت میں تدلیس کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اس کے عنعنہ کو سماع پر محمول کیا جاتاہے، الا یہ کہ کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت ہوجائے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے مدلسین کی پانچویں جنس میں اِنہیں مدلسین کاتذکرہ کیا ہے۔ (معرفۃ علوم الحدیث:ص۱۰۸،۱۰۹) مذکورہ بالا دعویٰ کی دلیل امام حمیدی رحمہ اللہ کی عبارت ہے: ’’اگر کوئی آدمی کسی شیخ کی مصاحبت اور اس سے سماع میں معروف ہو جیسے 1.ابن جریج عن عطا 2.ہشام بن عروۃ عن ابیہ 3. اور عمرو بن دینارعن عبید بن عمیر ہیں ۔ جو اِن جیسے ثقہ ہوں اور اکثر روایات میں اپنے شیخ سے سماع غالب ہو تو کوئی ایسی حدیث مل جائے جس میں اس نے اپنے اور اپنے شیخ کے مابین کسی غیر معروف راوی کو داخل کیا ہو یا پہلے سے موجود ایسے راوی کو گرایا ہو تو اس مخصوص حدیث، جو اس نے اپنے اُستاد سے نہیں سنی، کو ساقط الاعتبار قرار دیا جائے گا۔ یہ تدلیس اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں نقصان دہ نہیں ہوگی، یہاں تک کہ یہ معلوم ہوجائے کہ موصوف نے اس میں بھی تدلیس کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر یہ مقطوع کی مانند ہوگی۔‘‘ (الکفایۃ للخطیب البغدادي:۲/۴۰۹رقم ۱۱۹۰،اسنادہ صحیح باب فی قول الراوی حدثنا عن فلان) امام حمیدی رحمہ اللہ کے قول کا مدلول واضح ہے البتہ ان کی پیش کردہ تین مثالوں پرتبصرہ ناگزیر ہے: پہلی مثال اور ابن جریج کی تدلیس:امام حمیدی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ پہلی مثال (ابن جریج عن عطا) کی توضیح یہ ہے کہ عطا بن ابی رباح سے ان کی روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔(التاریخ الکبیر