کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 46
کثرت ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام صاحب اس قول سے مراد تدلیس کا ثبوت اور صحت لے رہے ہوں ۔ اس صورت میں امام مسلم رحمہ اللہ کا قول امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کے مترادف ہوگا۔‘‘ (شرح علل الترمذي لابن رجب:۲/۵۸۳) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے اس قول کے حوالے سے عرض ہے کہ ان کا ذکر کردہ پہلا احتمال امام مسلم رحمہ اللہ کے منہج کے عین مطابق ہے، کیونکہ تدلیس کی بنا پر راوی اسی وقت مشہور ہوگا جب وہ کثرت سے کرے گا۔ رہا ایک حدیث میں تدلیس کرنا یا ایک ہی بار تدلیس کرنا تو اس سے تدلیس میں شہرت نہیں مل سکتی۔ ان متقدمین کے علاوہ متعدد متاخرین بھی تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کرتے ہیں ۔ امام حاکم رحمہ اللہ ، امام ابونعیم رحمہ اللہ ، امام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ ، حافظ علائی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے حوالے سے ہم ’’دوسری دلیل: طبقاتی تقسیم‘‘ کے تحت عرض کرچکے ہیں ۔ جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے مزید عرض ہے: 7.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ موصوف بھی تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کرتے ہیں ۔ جس کی تائید ان کی مدلسین کی طبقاتی تقسیم بھی کرتی ہے۔ بلکہ اُنہوں نے مقدمہ کتاب طبقات المدلسین اور النکت علی کتاب ابن الصلاح(ج۲ ص۶۳۶تا۶۴۴) میں اس کی صراحت بھی فرمائی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یحییٰ بن ابی حیہ کلبی کے بارے میں محدثین کی جرح کی تلخیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ضعفوہ لکثرۃ تدلیسہ ’’محدثین نے کثرتِ تدلیس کی بنا پر اسے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘ (التقریب:۸۴۸۹) اس قول سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کثرتِ تدلیس بھی باعث ِجرح ہے۔ یادرہے کہ حقیقی مدلس وہی ہوتا ہے جو تدلیس کثرت سے کرے۔یہی رائے دیگر بہت سے معاصرین کی ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی نشاندہی بھی کردی جائے گی۔ قارئین کرام! ان ناقدین کے اقوال سے یہ بات بخوبی سامنے آچکی ہے کہ تدلیس کا حکم لگانے سے پہلے یہ تعیین کرنا ضروری ہے کہ وہ راوی قلیل التدلیس تو نہیں ، کیونکہ اس کی معنعن