کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 45
ثانیاً :چونکہ سفیان ثوری کو امام بخاری رحمہ اللہ سے قبل متعدد محدثین نے مدلس قرار دیا ہے جن میں امام یحییٰ بن سعید القطان بھی شامل ہیں ۔ (التاریخ لابن معین:۳/۳۷۴، فقرہ ۱۸۲۲، روایۃ الدوري،العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد: ۱ /۲۴۲، فقرہ۳۱۸) جس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ جانتے تھے کہ ثوری مدلس ہیں ۔ اب سوال یہ تھا کہ ان کی تدلیس کی ماہیت کیا ہے؟ جس کے پیش نظر امام صاحب نے ثوری کی سبھی روایات کا استقرا کیا اور پھر ِٖ نتیجہ نکالا کہ ثوری قلیل التدلیس ہیں ، لہٰذا ان کا عنعنہ سماع پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔ مدلس روایت اس سے مستثنیٰ ہوگی۔ ثالثا ً:امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ثوری ان نامزد اور دیگر متعدد شیوخ سے بھی تدلیس نہیں کرتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد امام مسلم رحمہ اللہ کا قول اس مسئلہ میں دلیل قطعی ہے۔ 6.امام مسلم رحمہ اللہ کی صراحت امام مسلم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواۃ الحدیث ممن روی عنھم إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھر بہ، فحینئذ یبحثون عن سماعہ في روایتہ ویتفقدون ذلک منہ،کي تنزع عنہم علۃ التدلیس ’’محدثین نے جن راویوں کے اپنے شیوخ سے سماع کا تتبع کیا ہے، وہ ایسے راوی ہیں جو تدلیس کی وجہ سے شہرت یافتہ ہیں ۔ وہ اس وقت ان کی روایات میں صراحت ِسماع تلاش کرتے ہیں تاکہ ان سے تدلیس کی علت دور ہوسکے۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم:ص۲۲، طبع دارالسلام) امام مسلم رحمہ اللہ کا یہ قول اس بارے میں نص صریح ہے کہ صراحت ِسماع صرف ان راویوں کی تلاش کی جائے گی جو بکثرت تدلیس کرتے ہیں اور ان کی شہرت کی وجہ ان کامدلس ہونا ہی ہے۔ گویا قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا ماسوائے مدلس (تدلیس والی) روایت کے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اس قول میں احتمال ہے کہ امام صاحب کامقصود یہ ہے کہ اس راوی کی حدیث میں تدلیس کی