کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 44
کھیل ولا عن منصور وذکر مشائخ کثیرۃ،ولا أعرف لسفیان عن ھولاء تدلیساً ما أقل؟؟ تدلیسہ (علل الترمذي:۲/۹۶۶،التمہید لابن عبدالبر: ۱/ ۳۵،جامع التحصیل للعلائي:ص۱۳۰، النکت لابن حجر:۲/۶۳۱) امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ جن اَساتذہ سے تدلیس نہیں کرتے، ان سے معنعن روایت بھی بیان نہیں کرتے۔بلکہ یہ فرمایا: ’’سفیان ثوری کی ان شیوخ سے تدلیس کو میں نہیں جانتا۔‘‘ اور یہ بات بھی انتہائی بعید ہے کہ سفیان ثوری کی ان شیوخ سے سبھی مرویات جو امام بخاری رحمہ اللہ تک پہنچی ہیں ، وہ سماع یا تحدیث کی صراحت کے ساتھ ہوں ،بلکہ سفیان ثوری کی ان شیوخ سے معنعن روایات کا موجود ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مگر اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کی ان سے معنعن روایات پر تنقید نہیں کی۔بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امام صاحب نے سفیان کی ان سے معنعن روایات کو اتصال پرمحمول کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مدلس (تدلیس والی) روایات کا تتبع کیا ہے ۔ ایسی مرویات کا نہیں جن میں سماع اور تدلیس دونوں کا احتمال ہو۔اگر امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا کلام تدلیس اور تدلیس کے احتمال دونوں کامحتمل ہوتا تو امام صاحب کا یوں کہنا زیادہ مناسب تھا:’’سفیان ثوری نے ان شیوخ سے سماع اور تحدیث کی صراحت کی ہے۔‘‘مگر امام صاحب نے ایسا نہیں فرمایا۔ ٭ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثوری رحمہ اللہ کی ان شیوخ سے روایات میں اصل ’اتصالِ سند‘ کو رکھا ہے تاآنکہ کسی روایت میں صراحتاً تدلیس ثابت ہوجائے؟یاپھر ثوری کی ان سے روایات میں اصل انقطاع ہے یہاں تک کہ ہرہر حدیث میں سماع یا تحدیث کی صراحت موجود ہو؟ اوّلا:اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ثوری کی ان شیوخ سے روایات کو سماع پر محمول کیا ہے تاآنکہ کسی قرینے سے معلوم ہوجائے کہ یہ روایت مدلس ہے جیسا کہ دیگر ماہرین فن کا اُسلوب ہے۔