کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 43
میں نے پوچھا:اعمش کی تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کے لیے کیسے الفاظ تلاش کیے جائیں گے (انکی ان مرویات کو کیسے اکٹھا کیا جائے گا جن میں سماع کی صراحت نہیں ) امام احمد رحمہ اللہ نے جواباً فرمایا: ’’یہ کام بڑا مشکل ہے۔‘‘ امام ابوداؤد نے فرمایا: أي إنک تحتج بہ ’’آپ اعمش کی معنعن روایات کو قابل اعتماد گردانتے ہیں !‘‘ (سؤالات أبي داؤد للامام أحمد رحمہ اللّٰہ:ص۱۹۹ ، فقرہ:۱۳۸) گویا امام احمد رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ ایسا راوی جو اپنی مرویات کے تناسب سے بہت کم تدلیس کرتا ہے تو اس کے عنعنہ کو محض اس وجہ سے ردّ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مدلس راوی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بہت ساری مقبول اَحادیث بھی ردّ کرنا ہوں گی جو تشدد اور بے موقع سختی کا اِظہار ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اعمش اور ان جیسے دوسرے مدلسین کی معنعن روایات کو مطلق طور پر قبول کریں یہاں تک کہ کسی دلیل سے اس مخصوص حدیث میں تدلیس معلوم ہوجائے۔ مثلاً صحیح سند کے باوجود متنِ حدیث میں نکارت آجائے یا پھر کسی دوسری روایت میں اس شیخ سے عدمِ سماع کی صراحت کرے وغیرہ تو وہ مخصوص روایت ناقابل اعتبار ہوگی۔ مزید برآں امام احمد رحمہ اللہ کے قول: ’میں نہیں جانتا‘سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سبھی مدلسین سے یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ سائل خواہش مند تھے کہ امام احمد رحمہ اللہ اس حوالے سے کوئی کلی قاعدہ بیان فرما دیں مگر امام احمد نے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بتا دیا۔ امام احمد رحمہ اللہ اِن دونوں (ہشیم اور اعمش) کی عنعنہ کا ردّ نہیں کررہے جو مشہور بالتدلیس ہیں تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ قلیل التدلیس راوی کے عنعنہ کو بالاولیٰ سماع پر محمول کرتے ہیں ۔ اِلا یہ کہ قلیل التدلیس راوی کی روایت میں تدلیس ثابت ہوجائے۔گویا یہ وہی منہج ہے جو امام ابن معین رحمہ اللہ ، امام ابن مدینی رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔جس پر امام یعقوب بن شیبہ نے سکوت فرما کر شیخین کی تائید کی ہے اور امام بخاری کا مذہب ہے۔ 5.امام بخاری رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ ، سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’ولا أعرف لسفیان الثوري عن حبیب بن أبي ثابت ولا عن مسلمۃ بن