کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 42
مدینی رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف ہے۔ 4.امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل کا نظریہ امام احمد رحمہ اللہ بھی اس مسئلہ میں دیگر ناقدین کے ہمدم ہیں ، کیونکہ ہشیم بن بشیر الواسطی ابومعاویہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ثقۃ ثبت کثیر التدلیس والإرسال الخفي‘‘ (التقریب:۸۲۳۲) ان سے قبل حافظ علائی رحمہ اللہ نے اُنہیں مشہور بالتدلیس قرار دیاہے۔ (جامع التحصیل للعلائي:ص۱۲۸، رقم۵۷) بلکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی مدلس روایات کی بھی بخوبی انداز میں نشان دہی فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو: کتاب العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد:فقرۃ:۶۴۴،۷۲۳، ۱۴۵۹،۲۱۲۷، ۲۱۲۹، ۲۱۳۲ تا۲۱۴۰ وغیرہ یہاں تک کہ ہشیم خود فرماتے ہیں : ’’جب میں تمہیں حدثنا یا أخبرنا سے بیان کروں تو اسے مضبوطی سے تھام لو۔‘‘ (علل الامام احمد:فقرہ۲۱۳۴) مگر اس کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ نے ہشیم کے عنعنہ پر توقف بھی کیا ہے۔ چنانچہ امام ابوداؤد فرماتے ہیں ، میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا: حدیث ابن شبرمۃ،قال رجل للشعبي: نذرت أن أطلّق امرأتی لم یقل فیہ ہشیم: أخبرنا، فلا أدري سمعہ أم لا‘‘ کہ’’ اس حدیث میں ہشیم نے أخبرنا نہیں کہا،مجھے نہیں معلوم کہ اس نے عبداللہ بن شبرمہ سے اس حدیث کو سنا ہے یا نہیں ۔‘‘ (مسائل الإمام أحمد تالیف ابی داؤد:ص۳۲۲) اگرہرمدلس کا عنعنہ مردود ہوتا بالخصوص ہشیم ایسے راوی کا، تو امام احمدہشیم کے عنعنہ کے بارے میں کیوں توقف کرتے؟جس طرح بیسیوں روایات میں اس کی تدلیس کوواضح کیا ہے، جیسا کہعلل الإمام أحمد سے معلوم ہوتا ہے،اسی قاعدہ کی رُو سے ابن شبرمہ والی حدیث کے بارے میں فیصلہ کن نقد فرما دیتے،مگر امام احمد رحمہ اللہ نے ایسا نہیں کیا۔بلکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو تدلیس کی وجہ سے معروف ہے کہ جب وہ’سمعت‘ نہ کہے تو وہ قابل اعتماد ہوگا؟ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مجھے نہیں معلوم!‘‘