کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 41
وہ روایت منکر اور ناقابل اعتماد ہوگی۔ یہی سوال امام یعقوب رحمہ اللہ نے امام ابن معین رحمہ اللہ کے ہم عصر امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے کیا۔ 2.امام ابن المدینی رحمہ اللہ کے ہاں تاثیر ٭ إمام العلل وطبیبھا علی بن مدینی رحمہ اللہ امام ابن شیبہ کے استفسار پر فرماتے ہیں : ’’إذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا، حتی یقول: حدثنا‘‘ ’’جب تدلیس اس پر غالب آجائے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے سماع کی توضیح کرے۔‘‘ (الکفایۃ للبغدادي:۲/۳۸۷، اسنادہ صحیح، التمہید لابن عبدالبر:۱/۱۸) امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اس جوابی فقرہ میں دو باتوں کی طرف نشاندہی فرمائی ہے: اولاً: مدلَّس روایت حجت نہیں ۔ ثانیاً: اس راوی کی جتنی مرویات ہیں ، ان کے تناسب سے وہ بہت زیادہ تدلیس کرتاہے یعنی اس کی تدلیس مرویات پر غالب ہے تو اس کی روایت کے قبول کرنے میں یہ شرط لاگو کی جائے گی کہ وہ اپنے سماع کی صراحت کرے۔ امام ابن المدینی رحمہ اللہ کے کلام کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا اِلا یہ کہ اس میں تدلیس ہو۔جیسا کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے امام ابن مدینی رحمہ اللہ کے اس قول کی توضیح میں فرمایا ہے۔دیکھئے فتح المغیث للسخاوي:۱/۲۱۶ 3.حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کا موقف ٭ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول:’’ہرمدلس کی عنعنہ مردود ہوگی‘‘ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین نے راوی کی حدیث کے بارے میں تدلیس کے غالب ہونے کا اعتبار کیا ہے۔جب تدلیس اس پر غالب آجائے گی تو اس کی حدیث اسی وقت قبول کی جائے گی جب وہ صراحت ِسماع کرے۔ یہ علی بن مدینی رحمہ اللہ کا قول ہے جسے یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔‘‘ (شرح علل الترمذي لابن رجب:۲/۵۸۳) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کا رجحان بھی امام علی بن