کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 40
میں تبدیلی کی ہے جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ معاملہ اجتہادی نوعیت کا ہے۔ گویا مدلسین کی اس تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مدلسین کی معنعن روایت مقبول ہوتی ہے اور بعض کی ردّ۔ تیسری دلیل:تدلیس کی کمی و زیادتی کی تاثیر امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف تیسری دلیل یہ ہے کہ محدثین حکم لگاتے ہوئے تدلیس کی قلت اور کثرت کا بھی اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ مدلسین کی معنعن روایات کا عمومی حکم اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ایسی مرویات ضعیف ہوں گی، اِلا یہ کہ وہ مدلس راوی اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کردے یا اس کا کوئی متابع یا شاہد موجود ہو۔مگر جو راوی قلیل التدلیس ہو،اس کی معنعن روایت مقبول ہوگی، بشرطیکہ وہ خود ثقہ ہو اور اس روایت میں نکارت نہ پائی جائے۔ اگر نکارت موجود ہو اور اس کا بظاہر کوئی اور سبب نہ ہو تو وہ (نکارت) تدلیس کا شاخسانہ قرار دی جائے گی۔ گویا ثقہ مدلس راوی کے عنعنہ کو تبھی تدلیس قرار دیا جائے گا جب اس کی سند یا متن میں نکارت پائی جائے گی۔ یہی فہم ناقدینِ فن کے اقوال سے مترشح ہوتا ہے۔ 1.امام ابن معین رحمہ اللہ کا فیصلہ ٭ امام یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ (م ۲۶۲ھ) نے امام العلل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (م۲۳۳ھ) سے تدلیس کی بابت اِستفسار کیا تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے تدلیس کو معیوب اور مکروہ جانا۔ امام ابن شیبہ رحمہ اللہ نے امام العلل سے سوال کیا: اگر مدلس اپنی روایت میں قابل اعتماد ہوتاہے یا وہ ’حدثنا‘ یا ’أخبرنا‘کہے؟ یعنی اپنے سماع کی صراحت کرے۔امام صاحب نے انتہائی لطیف جواب ارشاد فرمایا جو اُن کے اس فن کے شہسوار ہونے پر دلالت کرتا ہے، فرمایا: لایکون حجۃ فیما دلَّس’’جس روایت میں وہ تدلیس کرے گا، اس میں قابل اعتماد نہیں ہوگا۔‘‘ (الکفایۃ البغدادي:۲/۳۸۷ اِسنادہ صحیح، الکامل لابن عدی: ۱/۴۸، التمہید لابن عبدالبر:۱/۱۷،۱۸) قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے مدلس کی روایت کے عدمِ حجت ہونے میں یہ قاعدہ بیان نہیں فرمایا کہ جب وہ روایت عنعنہ سے کرے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا،بلکہ فرمایا کہ اس کی عنعنہ مقبول ہے مگر اس شرط پر کہ اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔ بصورتِ دیگر