کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 4
آئے ہیں ؟ یہ قدوسیوں کی سی معصومیت فرشتوں کی سی نورانیت اور سچے انسانوں کی سی محبت ان میں کہاں سے آگئی ہے۔ ماحول کی ہمہ گیر یکسانیت:تمام دنیا نسلی تعصّبات کے شعلوں میں جل رہی ہے، مگر دیکھو یہ دنیا کی تمام نسلیں کس طرح بھائیوں اور عزیزوں کی طرح ایک مقام پرجمع ہیں اور سب ایک ہی حالت، ایک ہی وضع، ایک ہی لباس، ایک ہی قطع، ایک ہی مقصد اور ایک ہی صدا کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ؟ سب اللہ کو پکار رہے ہیں ، سب اللہ ہی کے لیے حیران و سرگشتہ ہیں ، سب کی عاجزیاں اور درماندگیاں اللہ ہی کے لیے اُبھر آئی ہیں ۔ سب کے اندر ایک ہی لگن اور ایک ہی ولولہ ہے۔ سب کے سامنے محبتوں اور چاہتوں کے لیے اور پرستشوں اور بندگیوں کے لیے ایک ہی محبوب و مطلوب ہے۔ جب کہ تمام دنیا کا محورِ عمل، نفس و ابلیس ہے تو یہ سب صرف اللہ کے عشق و محبت میں خانہ ویراں ہوکر اور جنگلوں و دریاؤں کو قطع کرکے دیوانوں اور بے خودوں کی طرح یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ۔ اُنہوں نے نہ صرف دنیا کے مختلف گوشوں کو چھوڑا بلکہ دنیا کی خواہشوں اورولولوں سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔ دل سوختہ لوگوں کی بستی: اب یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے جس میں صرف عشقِ الٰہی کے زخمیوں اور سوختہ دلوں کی بستی آبادہوئی۔ یہاں نہ نفس کا گزر ہے جو غرورِ بہیمی کا مبدا ہے اور نہ انسانی شرارتوں کو بار مل سکتا ہے جو خون ریزی اور ظلم و سفاکی میں کرۂ ارضی کی سب سے بڑی درندگی ہیں ۔ رازونیازِ عبد و معبود:یہاں صرف آنسو ہیں جو حب کی آنکھوں سے بہتے ہیں ، صرف آہیں ہیں جو محبت کے شعلوں سے دھوئیں کی طرح اُٹھتی ہیں ، صرف دل سے نکلی ہوئی صدائیں ہیں جو پاک دعاؤں اور مقدس نداؤں کی صورت میں زبانوں سے بلند ہورہی ہیں ، اور ہزاروں سال پیشتر کے عہد ِ الٰہی اور راز و نیاز عبد و معبود ہی کو تازہ کررہی ہیں : لبیك لبیك اللھهم لبیك لا شریك لك لبیك سرِ روحانیاں داری ولے خود را ندیدستی بخواب خود در آ تا قبلۂ روحانیاں بینی!