کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 39
آدمی تحمل حدیث میں روایت بالاجازۃ کو قبول نہیں کرتا، اس کے ہاں ایسے مدلس کی تصریح سماع قابل رد اور عنعنہ مقبول ہوگا۔ اس تدلیس کے حکم میں ان لوگوں کا بھی ردّ موجود ہے جو محض تدلیس سے موصوف ہر شخص کے عنعنہ کو مردود سمجھتے ہیں ۔ دوسری دلیل:طبقاتِ مدلسین امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے برخلاف دوسری دلیل مدلسین کی طبقاتی تقسیم ہے۔ جواس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سبھی مدلسین کی تدلیس کا حکم یکساں نہیں ۔بنابریں ان کی مرویات سے بھی جداگانہ سلوک کیا جائے گا۔ موصوف اور صفت کے تفاوت کی وجہ سے دونوں کا حکم بھی متغیر ہوگا۔اسی تفاوت کے پیش نظر امام حاکم رحمہ اللہ نے مدلسین کی چھ اَقسام مقرر کی ہیں ۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:ص۱۰۳ تا۱۱۲، نوع:۲۶) امام حاکم کی پیروی دو محدثین نے کی،پہلے امام ابونعیم رحمہ اللہ صاحب ُالمستخرج ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ (النکت لابن حجر:۲/۶۲۲) دوسرے امام ابوعمروعثمان سعید دانی مقری رحمہ اللہ (۴۴۴ھ)ہیں ۔دیکھئے جزء في علوم الحدیث: ص۳۸۱ تا۴۹۱ مع شرحہ القیم بھجۃ المنتفع از شیخ مشہور حسن پھر حافظ علائی رحمہ اللہ نے مدلسین کے پانچ طبقے بنائے۔ (جامع التحصیل للعلائي:ص۱۳۰،۱۳۱) انکی متابعت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین پرمشتمل کتاب تعریف أہل التقدیس میں اُنہیں جمع فرما دیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس طبقاتی تقسیم کو اَساس قرار دے کر ڈاکٹرمسفربن غرم اﷲ دمینی نے کتاب التدلیس في الحدیث لکھی جو مطبوع اور متداول ہے۔بلکہ جنہوں نے بھی مسئلہ تدلیس کے بارے میں لکھا، اُنہوں نے ان پہلوؤں کو فراموش نہیں کیا۔یہاں اس غلط فہمی کا اِزالہ کرنا بھی ضروری ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے فلاں راوی کو فلاں طبقے میں ذکر کیاہے حالانکہ وہ اس طبقے کا راوی نہیں ، لہٰذا یہ طبقاتی تقسیم بھی درست نہیں ۔ عرض ہے کہ کسی خاص راوی کے طبقے کی تعیین میں اختلاف ہوناایک علیحدہ بات ہے۔ اس سے مدلسین کی طبقاتی تقسیم پر کوئی زَد نہیں پڑتی بلکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے النکت علی کتاب ابن الصلاح میں اپنی کتاب تعریف أھل التقدیس کے برخلاف رواۃ کے طبقات