کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 38
پہلی قسم:یہ ہے کہ راوی اپنے استاد سے وہ اَحادیث بیان کرتا ہے جو اس نے مروی عنہ (جس سے روایت کررہا ہے) سے سنی نہیں ہوتی، جب کہ مطلق طور پر اس کا سماع متحقق و یقینی ہوتاہے۔اس قسم کا حکم یہ ہے کہ مدلس کی ہر حدیث میں اس کے شیخ سے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، کیونکہ وہ جس حدیث کوبھی محتمل صیغہ سے بیان کررہا ہے، اس میں احتمال ہے کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے نہیں سنی۔ یہ حکم کثیر التدلیس مدلسین کا ہے۔ دوسری قسم:راوی اپنے ایسے ہم زمانہ سے حدیث بیان کرے جس سے اس کی ملاقات نہیں ہوتی، مگر وہ جس صیغے سے بیان کرتا ہے، اس سے یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی اس کی مسموعات میں سے ہے۔ تدلیس کی اس قسم کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اِرسالِ خفی قرار دیتے ہیں ۔ اس قسم کے حکم کے بارے میں علامہ حاتم بن عارف الشریف رقم طراز ہیں : ’’میں راوی کا عنعنہ اتنی دیر تک قبول نہیں کرتا جب تک اس کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہوجاتی۔ اگرچہ یہ ملاقات یا سماع حدیث صرف ایک ہی حدیث سے ثابت ہوجائے تو میں اس راوی کی اس شیخ سے بقیہ اَحادیث سماع پر محمول کرتا ہوں ، کیونکہ اس میں تدلیس کی جو قسم پائی جاتی ہے وہ ایسے معاصر سے روایت کرتا ہے جس سے سماع ثابت نہیں ، اس لیے اگر ایک ہی حدیث میں سماع ثابت ہوجائے تو اس مخصوص شیخ سے تدلیس کا الزام ختم ہوجائے گا۔‘‘ (شرح موقظۃ الذہبي للعوني:ص۱۲۶) تیسری قسم:اس قسم میں ’تدلیس الشیوخ‘ہے جس میں صیغِ اَدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا حکم مدلس راوی کی معرفت پر موقوف ہوتاہے۔اگر وہ ثقہ ہے تو اس کی نقل کردہ چیز مقبول ہوگی اور اگر وہ ضعیف ہو تو اس کا نقل کردہ قول بھی لائق التفات نہیں ہوگا اور جو ہر مدلس کے عنعنہ کو رد کرتے ہیں ، وہ تدلیس الشیوخ کے مرتکب مدلس اگرچہ وہ ثقہ ہوں کی عنعنہ کوبھی رد کردیں گے جو کہ درست نہیں ۔ چوتھی قسم:اس میں تدلیس الصیغ (صیغوں میں تدلیس)ہے۔اس قسم میں بھی تدلیس کی نوع متعین کرنا ہوگی اور اس کے مرتکبین کوبھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔اس تدلیس کی تاثیر تدلیس الاسناد کی تاثیر سے مختلف ہے، کیونکہ تدلیس الاسناد میں تو راوی کا عنعنہ مردود ہوتا ہے اور جو