کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 37
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ان دونوں اور دیگر مدلسین کی معنعن روایات سے استدلال کیوں کیاہے؟ امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے بارے میں شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن سعد فرماتے ہیں : ’’یہ کلام صرف نظریات کی حد تک ہے بلکہ ممکن ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے خود اس پر عمل نہ کیا ہو۔ اُنھوں نے اپنی اسی کتاب (الرسالۃ) میں متعدد مقامات پر ابن جریج کی معنعن روایت سے احتجاج کیا ہے۔اس حدیث میں امام شافعی رحمہ اللہ نے ابن جریج کی اپنے شیخ سے صراحت ِسماع ذکر نہیں کی،ایسے ہی ابوالزبیر کا معاملہ ہے۔‘‘ اسی طرحشیخ ناصر بن حمد الفھد رقم طراز ہیں : ’’ ائمۂ حدیث امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کی موافقت نہیں کرتے جیسا کہ امام احمد، امام ابن مدینی، امام ابن معین اور امام فسوی رحمہم اللہ اجمعین کا موقف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اُمت کے فقہا اور علماے اسلام میں سے ہیں ، مگر حدیث کے بارے میں ان کی معرفت ان حفاظ جیسی نہیں ہے، اور اگر ہم امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کا اعتبار کریں تو ہمیں ایسی صحیح احادیث بھی ردّ کرنا ہوں گی جنہیں کسی نے بھی ردّ نہیں کیا یہاں تک کہ (امام شافعی رحمہ اللہ کی موافقت میں ) شوافع نے بھی ردّ نہیں کیں بلکہ اُنہوں نے مدلسین کے مراتب قائم کیے ہیں ۔‘‘(معجم المدلسین شیخ محمد طلعت: ص۲۱۶،۲۱۷) امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کے جواب میں شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن نے بھی اسی قسم کا جواب دیا ہے۔ دیکھئے التعلیق علی الکافی فی علوم الحدیث للأردبیلی:ص۳۸۹ ٭ علامہ زرکشی رحمہ اللہ کا نقد آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ اُنہوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کو غریب کہا ہے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ موقف محل نظر ہے۔ اس کے مزید دلائل درج ذیل ہیں : پہلی دلیل:تدلیس کا حکم تدلیس کا حکم لگانے سے قبل یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ اس کی تدلیس کی نوعیت کیا ہے؟ اس بنا پرتدلیس اور اس کے حکم کو چار حصوں میں منقسم کیا جائے گا: