کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 36
’’بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ قتادہ جب سمعتُ یا حدثنا وغیرہ سے اپنے سماع کی صراحت نہ کریں تو ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ انتہائی افسوس ناک موقف ہے۔‘‘ یعنی حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے ہاں امام قتادہ رحمہ اللہ ایسے مشہور مدلس بھی جب روایت ِعنعنہ سے بیان کریں تو وہ مقبول الروایہ ہیں ۔ ان کا عنعنہ اسی وقت ردّ کیا جائے گا جب اس میں تدلیس پائی جائے گی۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں : ’’قتادۃ إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقلہ، فلا تقوم بہ حجۃ لأنہ یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منہ، ورُبّما کان بینھم غیر ثقۃ‘‘ ’’ قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔‘‘ (التمہید لابن عبدالبر:۳/۳۰۷) حافظ صاحب کی ان دونوں نصوص کو سامنے رکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ امام ابن عبدالبر، قتادہ کے عنعنہ کو رد کرنے میں تدلیس شرط قرار دے رہے ہیں ، بالفاظِ دیگر اِمام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی تردید بھی کررہے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مدلسین کی روایات سے استدلال اوپر آپ امام شافعی رحمہ اللہ کے حوالے سے پڑھ آئے ہیں کہ جو راوی ایک بار تدلیس کرے، اس کی سبھی معنعن روایات ناقابل قبول ہوں گی۔مگر اس اُصول کی انہوں نے خود مخالفت کی ہے: 1.امام صاحب نے ابن جریج کی معنعن روایت سے استدلال کیا ہے۔ (دیکھئے کتاب الرسالۃ للشافعی :ص۱۷۸ فقرہ ۴۹۸، ص۳۲۵ فقرہ۸۹۰ ،ص۳۳۰ فقرہ ۹۰۳ ،ص ۴۴۳ فقرہ۱۲۲۰) حالانکہ ابن جریج سخت مدلس ہیں اور مجروحین سے بھی تدلیس کرتے ہیں ۔ان کی ضعفا اور کذابین سے تدلیس کی وجہ سے محدثین ان کی مرویات کی خوب جانچ پرکھ کیا کرتے تھے۔جس کی تفصیل مُعجم المدلسین للشیخ محمد بن طلعت :ص۳۱۱ تا۳۲۰، التدلیس في الحدیث للشیخ مسفر:ص۳۸۳ تا ۳۸۶،بھجۃ المنتـفع للشیخ أبي عبیدۃ: ص۴۱۶تا۴۲۲ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ اسی طرح دوسری جگہ مشہور مدلس ابوالزبیر محمدبن مسلم بن تدرس کی معنعن روایت سے اِستدلال کیا ہے۔ دیکھئے کتاب الرسالۃ :ص۱۷۸ فقرۃ۴۹۸ ، ص۳۲۴ فقرۃ۸۸۹