کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 35
جو مدلس صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی صراحت کے بغیربھی قبول کی جائے گی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدمِ صراحت ِسماع کے باوجود قبول کی جائے گی۔ دنیا میں صرف سفیان بن عینیہ ایسے ہیں جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں ۔ سفیان بن عینیہ سے مروی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس میں وہ تدلیس کریں اور اسی حدیث میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے۔‘‘ (مقدمہ صحیح ابن حبان:۱/۹۰، الاحسان) امام ابن حبان رحمہ اللہ کے قول سے یہ اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف کے ہاں جو صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں ، وہ صرف ابنِ عیینہ ہیں ۔ حالانکہ یہ مفہوم درست نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ اپنے ہی جیسے ثقہ متقن راوی سے تدلیس کرتے ہیں ۔ عام ثقات سے تدلیس نہیں کرتے اور یہ عمومی قاعدہ ہے، اس سے وہ روایات مستثنیٰ ہوں گی جن میں تدلیس پائی جائی گی۔ دیگر محدثین کا امام شافعی وبغدادی سے اختلاف 1.امام شافعی رحمہ اللہ اور حافظ بغدادی رحمہ اللہ کا مذکورۃ الصدر موقف محل نظر ہے بلکہ جمہور محدثین اور ماہرینِ فن کے خلاف ہے۔ جیسا کہ حافظ بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ ۷۹۴ھ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’وھو نص غریب لم یحکمہ الجمہور‘‘ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشي:ص۱۸۸) ’’یہ انتہائی غریب دلیل ہے، جمہور کا یہ فیصلہ نہیں ۔‘‘ 2.حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف کو اپنانے والوں پرافسوس کا اِظہار کیا ہے۔مشہور مالکی امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام قتادہ بن دعامہ،جو تدلیس کرنے میں مشہورہیں ، کے عنعنہ کومطلق طور پر ردّ کرنے والوں کا تعاقب فرمایا ہے۔ چنانچہ لکھتی ہیں : ’’قال بعضھم قتادۃ إذا لم یقل: سمعتُ أو حدثنا فلا حجۃ في نقلہ وھٰذا تعسف‘‘ (التمہید لابن عبدالبر:۱۹/۲۸۷)