کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 34
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 1.’’ جس شخص کے بارے میں ہمیں علم ہوجائے کہ اس نے صرف ایک ہی دفعہ تدلیس کی ہے تو اس کا باطن اس کی روایت پر ظاہر ہوگیا۔ 2. اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مدلس کی حدیث اتنی دیر تک قبول نہیں کرتے جتنی دیر تک وہ حدثني یا سمعتُ (صراحت ِسماع ) نہ کہے۔‘‘ (الرسالۃ للإمام الشافعي: ص۳۷۹، ۳۸۰، فقرہ:۱۰۳۳،۱۰۳۵) امام شافعی رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا کلام کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں فرمایا کہ جو راوی صرف ایک ہی بار تدلیس کرے، اس کی ہر معنعن روایت قابل ردّ ہوگی۔ گویا امام موصوف کے ہاں راوی کے سماع کی تتبع کے بعد تدلیس کا مکرر ہونا یا اس کی مرویات پر تدلیس کا غالب آنا شرط نہیں ہے بلکہ محض ایک بار تدلیس کا پایا جانا ہی کافی ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کی یہی تعبیر کی ہے۔ (شرح علل الترمذي:۲/۵۸۲-۵۸۳) مدلس کی ایک ہی بار تدلیس کے حوالے سے حافظ ِمشرق خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔(الکفایۃ للخطیب البغدادي: ۲/۳۸۹-۳۹۰) مدلس کی ایک بار تدلیس کے حوالے سے ان دونوں ماہر محدثین کے علاوہ کسی اور کا یہ موقف معلوم نہیں ہوسکا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے کلام کے دوسرے حصہ میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ مدلس راوی کی معنعن روایت قابل قبول نہیں ہے۔ یہی موقف متعدد محدثین کا بھی ہے،مگر ان کا یہ موقف کثیر التدلیس راوی کے بارے میں ہے، صرف ایک بار والے مدلس راوی پر نہیں ۔ ٭ بعض لوگوں نے حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف بیان کیاہے۔ بلا شبہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی مسلک کو اپناتے ہوئے یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ہمارے دیگر اساتذہ کا موقف ہے۔ (مقدمۃ المجروحین لابن حبان:۱/۹۲) مگر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا یہ موقف مطلق طور پر نہیں ہے،کیونکہ ان کے ہاں