کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 33
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص۱۱۰) یہ بات بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ علامہ الشریف حاتم نے (المرسل الخفي:۱/ ص۵۳۰،۵۳۱)میں اس نوع کے آٹھ مدلسین ذکر کیے ہیں اور شرح الموقظۃ للذہبي میں نویں مدلس مسیب بن رافع کابھی اضافہ کیا ہے۔ (شرح موقظۃ الذہبي للعوني:ص۱۲۴) 2.تدلیس الشیوخ مدلس راوی نے جس اُستاذ سے حدیث سنی ہوتی ہے، اس کا ایسا وصف بیان کرتا ہے جس سے اس کی شخصیت مجہول ہوجاتی ہے یا پھر سامعین کی توجہ اسی نام کے کسی دوسرے شیخ کی طرف مائل ہوجاتی ہے مثلاً وہ اس کا غیر معروف نام، کنیت، قبیلے یا پیشے کی طرف نسبت کردیتا ہے۔ تدلیس کی اس نوع میں صیغ اَدا میں تدلیس نہیں ہوتی اور نہ ہی سند سے کسی راوی کا اسقاط ہوتا ہے، محض شیخ کا نام وغیرہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ بنابریں ایسی تدلیس میں مدلس کا عنعنہ اور صراحت ِسماع دونوں یکساں ہیں ۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶، إرشاد طلاب الحقائق للنووي:۱/۲۰۷،۲۰۸) تدلیس الشیوخ کی ذیلی قسم تدلیس البلدان ہے جس کی تفصیل یہ ہے: تدلیس البلدان حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ اس کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’بغداد میں ایک طالب ِحدیث داخل ہوا۔ وہ شیخ کو لے جاکر رقّہ میں بٹھاتا ہے، یعنی اس باغ میں جو دریاے دجلہ کے دونوں کنارے چلا گیا ہے اور شیخ کو حدیث سناتا ہے۔ پھراپنے حدیث کے مجموعے کو یوں لکھتا ہے کہ مجھ سے رقّہمیں فلاں فلاں شخص نے حدیث بیان فرمائی۔ اس سے وہ لوگوں کو وہم میں ڈالتا ہے کہ رقّہ سے وہ شہر مراد ہے جو ملک ِشام کی طرف ہے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس محدث نے طلب ِحدیث میں دوردراز کے سفر کیے ہیں ۔‘‘ (تلبیس ابلیس لابن جوزی:ص۱۱۳) مدلس کی روایت کا حکم او رامام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی توضیح اب امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کا مدلس کی روایت کے بارے میں موقف ملاحظہ فرمائیں :