کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 32
کردیتا ہے جس سے سامعین کو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حدثنا کا قائل وہی ہے جومدلس نے بہ آواز بلند ذکر کیا ہوتا ہے۔ ایسا فعل عمر بن عبید طنافسی سے مروی ہے۔ (النکت لابن حجر:۲/۶۱۷) ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ کتاب میں اسے تدلیس القطع قرار دیا ہے۔ 3. تدلیس القطع تدلیس الاسناد کی تیسری قسم تدلیس القطع ہے جس میں مدلس راوی صیغۂ اَدا حذف کردیتا ہے اور بطورِ مثال الزہري عن أنس پر اکتفا کرتا ہے۔ (تعریف أھل التقدیس لابن حجر :ص۱۶) اس تدلیس کو تدلیس الحذف بھی کہا جاتا ہے۔ 4. تدلیس العطف چوتھی قسم تدلیس العطف ہے جس میں مدلس راوی اپنے دو اساتذہ، جن سے اس کا سماع ثابت ہوتا ہے، سے روایت بیان کرتاہے۔مگر وہ روایت اس نے صرف پہلے اُستاد سے سنی ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماع کی تصریح کردیتا ہے اور دوسرے استاد کو پہلے اُستاد پر عطف کردیتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ میں نے یہ روایت ان دونوں اساتذہ سے سماعت کی ہے۔ جیسے ہشیم بن بشیر نے کہا:حدثنا حصین ومغیرۃ حالانکہ ہُشیم نے اس مجلس میں بیان کردہ ایک حرف بھی مغیرہ سے نہیں سنا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:ص۱۰۵،جزء في علوم الحدیث لأبي عمرو الداني: ص۳۸۲، ۳۸۳ رقم ۹۴) 5.تدلیس الصیغ پانچویں قسم یہ ہے کہ مدلس راوی اپنے شیخ سے روایت کرنے میں ایسے صیَغ اَدا استعمال کرتا ہے جس کے لیے وہ اصطلاحات وضع نہیں کی گئیں ۔ مثلاً غیر مسموع روایت پر حدثنا کا اطلاق کرنا جیسے فطر بن خلیفہ کا طرزِ عمل تھا۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلي:۳/۴۶۵، فتح المغیث للسخاوي: ۱/۲۱۱،۲۱۲) اسی طرح إجازۃ بدون سماع والی روایت کو أخبرناسے بیان کرنا جیسے امام ابونعیم رحمہ اللہ اور دیگر اَندلسیوں کا یہی طریقہ تھا۔ (سیرأعلام النبلاء للذہبي:۱۷/۴۶۰) اسی طرح وِجادۃ پر حدَّثنا کا اطلاق کرنا جیسے اسحق بن راشد کا رویہ تھا۔