کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 31
ہوتا اور بسا اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں ہوتی،سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ان کے مابعد محدثین نے تدلیس الاسناد کی اس دوسری صورت کو ’اِرسال خفی‘ قرار دیتے ہوئے تدلیس سے خارج قرار دیا ہے۔ (النکت لابن حجر: ۲/۶۱۴، ۶۲۲ تا۶۲۴) مگر معلوم ہوتا ہے کہ ’ارسالِ خفی‘ بھی تدلیس کی ذیلی قسم ہے،مستقل قسم نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرمارہے ہیں ۔ تدلیس الاسناد کی اس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم اس کی ذیلی اَقسام کی طرف چلتے ہیں جس میں تدلیس التسویۃ، تدلیس السکوت، تدلیس القطع، تدلیس العطف اور تدلیس الصیغ شامل ہیں ۔ 1.تدلیس التسویۃ اس کی تعریف ہے کہ مدلس راوی اپنے کسی ایسے ثقہ اُستاد سے حدیث سنتا ہے جس نے وہ حدیث ضعیف راوی سے سنی ہوتی ہے اور وہ ضعیف راوی آگے ثقہ یا صدوق راوی سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔گویا دو ثقہ راویوں کا درمیانی واسطہ ایک ضعیف راوی ہوتا ہے۔ مدلس راوی ان دونوں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا کر ثقہ کو ثقہ سے ملا دیتا ہے اور سند کو بظاہر عمدہ بنا دیتا ہے،کیونکہ پہلے ثقہ راوی کا دوسرے ثقہ راوی سے سماع ثابت ہوتا ہے یا کم از کم وہ دونوں ہم عصر ہوتے ہیں ۔دیکھئے:( الکفایۃ :۲/۳۹۰) ایسا فعل صفوان بن صالح الدمشقي اور محمد بن مصفّٰی سے منقول ہے۔ تدلیس التسویۃ تدلیس کی بدترین قسم ہے۔ محدثین نے تدلیس کی جو شدیدمذمت کی ہے، ان اَسباب میں سے ایک سبب تدلیس التسویۃ بھی ہے۔ 2.تدلیس السکوت تدلیس الاسناد کی ذیلی اقسام میں دوسری قسم یہ ہے کہ مدلس راوی حدثنا وغیرہ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے اور دل ہی میں اپنے شیخ کا نام لیتا ہے، پھر روایت آگے بیان کرنا شروع