کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 30
زبر کے ساتھ) ہے جس کا مطلب ہے: اختلاط النور بالظلمَۃ یعنی ’’اندھیرے اور اُجالے کا سنگم‘‘ دلس البائع کے معنی:بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا ہے۔ (مزید تفصیل:الصحاح للجوھري:۲/۹۲۷،لسان العرب:۷/۳۸۹، تاج العروس: ۴/۱۵۳ ) اِصطلاحی تعریف اگر راوی اپنے ایسے اُستاد جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے وہ روایت عَن، أنَّ،قَال،حدَّث وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے درحقیقت اُس نے اپنے اُستاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سنا ہے اور سامعین کو یہ خیال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے سنی ہوگی تو اسے ’تدلیس‘ کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶) تدلیس کی مرکزی قسمیں دوہیں : 1.تدلیس الاسناد اس کی دو تعریفیں ہیں : 1. راوی کا اپنے اُستاد سے ایسی اَحادیث بیان کرنا جو دراصل اُس نے اِس اُستاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں ۔ 2. راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔ پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند اَحادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی اَحادیث ہوتی ہیں جنہیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کیا ہوتا بلکہ اُس راوی سے سنا ہوتا ہے جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں ۔ وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدمِ اتصال پر ، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ دوسری صورت کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصرجس سے اس نے کچھ سنا نہیں