کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 28
بنی تھی۔ آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔ آپ نے مساوات کی تعلیم دی۔ آپ نے خود مساوات، اخوتِ انسانی، اور جنسِ انسانی کی برابری کی یہ عملی مثال پیش کی کہ ایک غلام کو اپنا فرزندِ متبنٰی بنایا، اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک غلام سے بیاہا اور مطلّقہ عورتوں سے شادی کی۔ آپ نے ایثار کی تعلیم دی توایثار میں بھی اپنا نمونہ پیش کیا۔آپ کے پاس چادر نہیں تھی۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے چادر لاکر پیش کی۔کسی نے کہا: کتنی اچھی چادرہے۔ آپ نے چادر فوراً اُتار کر اسے دے دی۔ عزیزو! آؤ دشمنوں کو پیار کرنے کی عملی مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو دکھاؤں ۔ مکی حالات چھوڑتا ہوں کہ محکومی، بیکسی اور معذوری، عفوودرگذر اور رحم کے ہم معنی نہیں ہوتے۔ ہجرت کے وقت سو اُونٹ کے لالچ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاتعاقب کرنے والے سراقہ رضی اللہ عنہ کی جان بخشی کر دی۔ کفار کے سرغنہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ ہند کو فتح مکہ کے دن معافی مل گئی۔ سب سے بڑے دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ آئے تو فرمایا: ’’اے مہاجر سوار! تمہارا آنا مبارک۔‘‘یہ اسے کہاگیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نجاست ڈلوائی، حالت ِنماز میں آپ پر حملہ کیااور آپ کے گلے میں چادر ڈال کر قتل کرنا چاہا۔ پیغمبر اسلام کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے قاتل ہبار بن الاسود کو معاف کر دیاگیا۔ زہر بجھی تلوار سے قتل کے لیے آنے والا عمیر بن وہب گرفتار ہونے پر رہا کر دیاجاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ پر پتھر برسانے والوں ، آپ کادانت شہید اور چہرہ خون آلود کرنے والوں کے لیے دعاکی۔ آپ کو جھٹلانے، گالیاں دینے، راستے میں کانٹے بچھانے اور غریب و بیکس مسلمانوں کو ستانے والے سردارانِ قریش فتحِ مکہ کے دن صحنِ حرم میں سرجھکائے سامنے بیٹھے تھے۔ پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں ، لیکن وہ سب معاف کر دیئے گئے۔ میرے دوستو!کیا پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا،انسانی تاریخ میں ایسی عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی اور نمونہ کہیں نظر آتا ہے؟