کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 24
سیرت ِ محمدی کے آئینہ میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم و روح، ظاہر و باطن، قول و عمل اور آداب و رسوم کی اصلاح کر سکتا ہے۔ کوئی اور انسانی زندگی اس کاملیّت کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے ،اس لیے تمام انسانوں کے لیے یہی ایک کامل نمونہ ہے! 3. سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیّت حضرات! محبت ِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے ہر مذہب یہی بتاتا ہے کہ اس کے بانی کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے۔ اسلام نے ایک بہتر تدبیر بتائی ۔ اس نے اپنے پیغمبر کا عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا اور اللہ کی محبت اس عملی نمونہ کی پیروی سے مشروط کر دی۔ کسی مذہب کے حلقہ ٔ اطاعت میں شامل اشخاص مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں حکمران، رعایا، سپہ سالار، سپاہی، فاتح ، مفتوح، جج ، مفتی، غریب ، دولتمند، عابد، زاہد، مجاہد، اہل وعیال، دوست و احباب، تاجر ، خریدار، امام، مقتدی، اُستاد ، شاگرد، جوان ، بچے، شوہر اور باپ سب شامل ہیں جنہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ اسلام اُنہیں اتباعِ سنّت ِ نبوی کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہر انسان کے لیے نمونے اور مثالیں ہیں ۔ انسان مختلف لمحوں میں مختلف افعال کرتا ہے: چلنا، پھرنا، اُٹھنا ، بیٹھنا، کھانا ، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا ، رونا، پہننا ، اُتارنا، نہانا، دھونا، لینا ، دینا، سیکھنا ، سکھانا، مرنا ، مارنا، مہمان بننا، میزبانی کرنا، عبادت ، کاروبار ، راضی ہونااور ناراض ہونا، خوش اور غمزدہ ہونا، کامیاب اور ناکام ہونا، شجاعت، بزدلی،غصہ، رحم،سخت گیری، نرم دلی،انتقام،معافی، صبر، شکر، توکل، رضا، قربانی و ایثار،عزم وا ستقلال، قناعت واستغنا، تواضع وانکساری، نشیب و فراز اور بلند و پست وغیرہ ان تمام افعال ِ انسانی اور احساسات ِ قلبی کی راہنمائی کے لیے ایک عملی نمونہ کی ضرور ت ہے۔ ایک ایسا عملی نمونہ جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صرف شجاعانہ قوتیں یا حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا صرف نرم اخلاق ہی نہ ہو بلکہ یہ دونوں صفات معتدل حالت میں موجود ہوں ۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت سلیمان، حضرت داؤد، حضرت ایوب، حضرت یونس حضرت یوسف اور حضرت یعقوب علیہم السلام سب کی زندگیاں سمٹ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سما گئی ہیں ۔ ٭ دوستو!دنیا میں دو طرح کی تعلیم گاہیں ہیں : ایک وہ جہاں صرف ایک فن جیسے میڈیکل،