کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 23
تشدد،مساوات، شرم وحیا، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، ایفاے عہد، دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں اور قیدیوں سے سلوک،اہل کتاب، منافقین اورغیرمسلموں سے برتاؤ، غریبوں سے محبت، بچوں پر شفقت، عورتوں سے برتاؤ، اولاد سے محبت، نکاح، بیویوں سے سلوک، ازدواجی تعلقات کا طریقہ، خرید و فروخت ،حوائجِ ضروری کے آداب اور جانوروں سے سلوک اور اُن پر رحم وغیرہ۔ اس اجمالی تفصیل سے اندازہ لگالیں کہ جب ان جزئیات کو محفوظ رکھا گیا ہے تو بڑی اور اہم باتوں کی کیا کچھ تفصیل ہو گی۔ میرے دوستو! بڑے سے بڑا انسان جس کی ایک ہی بیوی ہو، یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ بیوی کو یہ اجازت دے کہ تم میری ہر بات اور ہر حالت سب کو کہہ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویوں کو عام اجازت تھی کہ خلوت اور رات کی تاریکی میں مجھ میں جو دیکھو، وہ جلوت اور دن کی روشنی میں سب کو برملا بیان کر دو۔مسجدِنبوی کے چبوترہ پر رہنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم دن رات آپ کے حالات دیکھنے اور اُنہیں دوسروں کو بیان کرنے میں مصروف رہتے۔ دن میں مدینہ کی تمام آبادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اَدا کا مشاہدہ کرتی۔ جنگوں میں ہزارہا صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے شب و روز دیکھے۔ حجۃ الوداع میں تقریباً ایک لاکھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی زیارت کی۔ ہر شخص کو حکم تھا کہ آپ کی ہر حالت و کیفیت منظر عام پر لائی جائے۔اس اخلاقی اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے پیروکاروں ہی کے درمیان نہیں رہے۔ آپ نے نبوت سے پہلے چالیس اور نبوت کے بعد تیرہ برس قریشِ مکہ میں گزارے جنہوں نے آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا۔ وہ آپ کے دعواے نبوت پر برہم ہوئے، گالیاں دیں ، نجاستیں ڈالیں ، پتھر پھینکے، قتل کی سازشیں کیں ، ساحر، شاعر اور مجنون کہا، مگر کوئی آپ کے اخلاق و اعمال کے خلاف ایک حرف بھی نہ کہہ سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدا میں ایمان لانے والے کوئی مچھیرے یا غلام قوم کے نہیں بلکہ ایک ایسی آزاد قوم کے لوگ تھے جو اپنی عقل و دانش میں ممتازتھی۔ جو کبھی کسی کے محکوم نہیں ہوئے تھے۔ان کی تجارت دنیا میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بھلا ایسے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حال چھپا رہ سکتا تھا؟