کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 20
یہ غلط ہے کہ تدوین و تحریرِ حدیث کا کام ایک سو برس بعد تابعین نے شروع کیا۔ تابعین وہ شخصیات ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نصیب نہیں ہوئی مگروہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مستفید ہوئے، خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوں یا آپ کی رحلت (۱۱ھ) کے بعد پیدا ہوئے، وہ سب تابعین ہیں ۔ آپ کی زندگی ہی میں تابعین کا عہدکم از کم ۱۱ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔ لہٰذا جو کام ۱۱ھ میں شروع ہوا، کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز تابعین نے کیا۔ مسلمانوں کے فن سیرتِ نبوی کا پہلا اُصول یہ تھا کہ واقعہ اس شخص کی زبان سے بیان ہو جو خود شریکِ واقعہ تھا، ورنہ شریکِ واقعہ تک تمام درمیانی راویوں کے نام بالترتیب بتائے جائیں ۔ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ وہ کون تھے، ان کے مشاغل اور چال چلن کیسی تھی، ثقہ تھے یا غیر ثقہ، نکتہ رس تھے یا سطحی الذہن اور عالم تھے یا جاہل؟ ہزاروں محدّثین نے اپنی عمریں اس کام میں کھپا دیں ، ہزاروں میلوں کا سفر کیا اور لاکھوں لوگوں سے ملے۔ پھر عقلی اعتبارسے روایات پرکھنے کے اُصول الگ ترتیب دئیے۔راویوں کی چھان بین میں اتنی دیانتداری دکھائی کہ وہ واقعات اسلام کا فخر ہیں ۔ راویوں میں بڑے بڑے حکمران اور اُمرا بھی تھے مگر محدّثین نے بلاخوف سب کو وہی درجہ دیا جو اُنہیں مل سکتا تھا۔ وکیع رحمہ اللہ کے والد سرکاری خزانچی تھے مگر جب وکیع رحمہ اللہ ان سے روایت کرتے تو اُن کی تائید میں ایک اور راوی کو ضرور شامل کرلیتے، یعنی تنہا اپنے باپ کی روایت تسلیم نہ کرتے۔ معاذ رحمہ اللہ بن معاذکو دس ہزار دینار پیش کیے گئے کہ وہ ایک شخص کے متعلق خاموش رہیں اور اسے معتبر یا غیر معتبر کچھ نہ کہیں ۔ معاذ رحمہ اللہ نے اَشرفیوں کا توڑا حقارت سے ٹھکرا دیا۔ محدّثین نے جھوٹی اور ضعیف روایتیں بھی محفوظ کیں تاکہ مخالفین یہ کہہ نہ سکیں کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی کمزوریاں چھپانے کے لیے کئی روایتیں غائب کر دیں ۔ محدّثین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب صحیح و غلط سارا مواد لا کر سامنے رکھ دیا اور اُصول مقرر کرکے ان دونوں کے درمیان فرق بتا دیا۔ یہ تمام روایات آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں اور انہی اصولوں کے تحت ہر واقعہ پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ عزیز جوانو! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات