کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 18
حیرت زدہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور متعلقاتِ زندگی پر مشتمل سرمایۂ روایت ضبط ِتحریر ہو چکا تو اسے روایت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہ اللہ ، تبع تابعین رحمہ اللہ علیہم اور بعد کے چوتھی صدی ہجری تک کے راویوں کے نام، حالات اور اخلاق و عادات کو بھی لکھا گیا۔جن کی تعداد جرمن ڈاکٹر اسپرنگر کے نزدیک پانچ لاکھ ہے۔ حیات ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری سال حجۃ الوداع میں حاضر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی جن میں سے گیارہ ہزار کے نام و اَحوال آج تحریری شکل میں محفوظ ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور واقعات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا ہے۔ ہزاروں صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو کچھ دیکھا اور جانا، وہ سب دوسروں کو بتایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد فوراً ہی دوسری نسل اِن معلومات کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث دوسروں تک پہنچانے کی تاکید کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی تھی کہ ’’جو کوئی میرے متعلق قصداً جھوٹ منسوب کرے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘اس اعلان کا اثر تھا کہ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم روایت ِحدیث کرتے وقت کانپتے تھے۔ عربوں کا حافظہ تیز تھا۔یہ فطری قاعدہ ہے کہ جس قوت سے جتنا کام لیا جائے، اتنا ہی وہ ترقی پاتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین نے قوت ِ حفظ کو معراجِ کمال تک پہنچایا۔ایک ایک محدث کو کئی کئی ہزار اور کئی کئی لاکھ احادیث یادتھیں ۔ ابتدا میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے احادیث کولکھنابوجوہ مناسب نہ سمجھا، مثلاً: 1. آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرمایا تھا تاکہ قرآن اور غیر قرآن آپس میں مل نہ جائیں ۔ ازاں بعد قرآن مکمل محفوظ ہونے پر احادیث لکھنے کی اجازت مل گئی۔ 2. صحابہ کرام کواس بات کا اندیشہ تھا کہ تحریری مجموعہ پاس ہونے سے لوگ حفظ کرنے سے جی چرانے لگیں گے۔ 3. عربوں میں ابھی تک کوئی واقعہ لکھ کر محفوظ رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ کوئی چیز تحریر کر بھی لیتے تھے تو اسے چھپائے رکھتے تھے۔