کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 17
4. عملیّت ’آئیڈیل لائف‘ کا آخری معیارعملیت ہے۔یعنی بانی ٔ مذہب جو تعلیم دیتا ہے، اس پر خود عمل کرکے اس تعلیم کو قابلِ عمل ثابت کیا ہو۔ انسانی سیرت کے کامل ہونے کی دلیل اس کے نیک اَقوال و نظریات نہیں بلکہ اس کے اعمال و کارنامے ہوتے ہیں ۔ عزیزو!جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ معاف کرنے کی عملی مثال کیسے دکھا سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔ جو بیوی بچے اور عزیز واحباب نہ رکھتا ہو، وہ انہی تعلقات سے آباد دنیا کے لیے مثال کیونکر بن سکتا ہے۔ جسے دوسروں کو معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی غصہ آور لوگوں کے لیے نمونہ کیسے بنے گی۔ اس معیار پر بھی سیرت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی دوسری سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔ آئیڈیل اور نمونۂ اتباع شخصیت کی سیرت میں یہ چار باتیں پائی جانی چاہئیں : تاریخیّت، جامعیّت، کاملیّت اور عملیّت میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اِن خصوصیات سے خالی تھیں ، بلکہ اُن کی سیرتیں جو عام انسانوں تک پہنچیں ، وہ اِن خصوصیات سے خالی ہیں ۔ ایسا ہونا مصلحت ِ الٰہی کے مطابق تھا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیا محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو آئندہ زمانہ تک محفوظ رکھنا ضروری نہیں تھا۔ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام کے لیے اور دائمی نمونۂ عمل بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ آپ کی سیرت کوہر حیثیت سے مکمل اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی۔یہی ’ختم نبوت‘ کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے۔ آئیے! اب اِن چاروں معیاروں کے مطابق پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں : 1.سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخیت سب سے پہلی چیز ’تاریخیت‘ ہے۔ مسلمانوں نے اپنے پیغمبراور ہر اس چیز اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی ہے اس پر دنیا