کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 16
مذہب کے پیروؤں پر فرض ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض کی تفصیلات اپنے اپنے بانیوں کی سیرتوں میں تلاش کریں ۔ جو مذاہب خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے ،جیسے بدھ مت اور جین مت کے متعلق کہا جاتا ہے، تو ان کے بانیوں میں محبت ِ الٰہی اور توحید پرستی وغیرہ کی تلاش ہی بیکار ہے۔ جن مذاہب نے خدا کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کیا ہے، ان کے بانیوں کی زندگیوں میں بھی خدا طلبی کے واقعات مفقود ہیں ۔ توحید اور اس کے احکام اور قربانی کی شرائط کے علاوہ تورات کی پانچوں کتابیں یہ نہیں بتاتیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعلقات ِ قلبی، اطاعت و عبادت اوراللہ کی صفات ِ کاملہ کی تاثیر ان کے قلب اَقدس میں کہاں تک تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کاآئینہ انجیل ہے۔ انجیل میں ایک مسئلہ کے علاوہ کہ خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ اس دنیاوی زندگی میں باپ اور بیٹے میں کیا تعلقات تھے؟ اب حقوق العباد کو لیجئے، بدھ اپنے اہل و عیال، دوست اور حکومت وسلطنت کے بارِ گراں کو چھوڑ کر جنگل چلے گئے۔ اسی لیے بدھ کی زندگی اس کے ماننے والوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں بنی، ورنہ چین، جاپان، سیام، وانام، تبت اور برماکی سلطنتیں ، صنعتیں اور دیگر کاروباری مشاغل فوراً بند ہوجاتے اور بجاے آباد شہروں کے صرف سنسان جنگل رہ جاتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جنگ و سپہ سالاری کا پہلو نمایاں ہے۔اس کے علاوہ ان کے پیروکاروں کے لیے دنیاوی حقوق و فرائض کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیغمبرانہ طرز ِ عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک ہوگا، مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابیں ان اَبواب سے خالی ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں ، انجیل کے مطابق ان کے بھائی بہن بلکہ مادی باپ تک بھی تھا۔ مگر اُن کی سیرت اِن رشتہ داروں سے آپ کا طرزِ عمل اور سلوک نہیں بتاتی۔ دنیا ہمیشہ انہی تعلقات سے آباد رہی ہے اور رہے گی۔ آپ نے محکومانہ زندگی بسر کی، اس لیے ان کی سیرت حاکمانہ فرائض کی مثالوں سے خالی ہے۔