کتاب: محدث شمارہ 342 - صفحہ 12
توبہ توڑ دی ہے پھر بھی باز آجا اور توبہ کرلے… تو تیری توبہ قبول ہوگی۔‘‘ محرومی از برکات ِ وقت ِ مجیب اے عزیزانِ غفلت شعار! اے بقیۂ ماتم گزارانِ قافلۂ ملت! تمہاری غفلتوں پر حسرت، تمہاری سرشاریوں پر صد افسوس اور تمہاری عزائم فراموشیوں پر صد ہزار آہ و ماتم، اگر تم اس وقت عظیم و مجیب کی برکتوں سے محروم رہو۔ (اور اگر) تم اپنے دل ہاے مجروح اور ارواحِ مضطر کو خونباری و دجلہ ریزی کے لیے تیار نہ کرو! جنگ اور صدیوں کی جنگ تم کو اس جنگ… کی بھی کچھ خبر ہے جو دنیا کی سب سے بڑی ضعیف ہستی اور سب سے بڑی لازوال طاقت کے درمیان صدیوں سے جاری ہے… جو تم میں اور تمہارے خدائے قاہر و قیوم میں برپا ہے، جس میں آج تک کسی بڑی سے بڑی قوت نے بھی فتح نہ پائی اور جس کی آخری شکست بڑی ہی الیم و معذّب ہے۔ تم اس فاطر السموات والارض کی لایزال ولم یزل طاقت پر ایمان نہیں لاتے… تم کو یاد نہیں آتا، اس شہنشاہِ ارض و سما سے سرکش ہوگئے ہو، جواپنی ایک نگہ ِ مشیّت سے تمام نظام ارضین و سماوات کو اُلٹ دینے پر قادر ہے۔ بخت ِ خفتہ و طالع گم گشتہ آہ! تمہاری غفلتوں پر آسمان روئے اور زمین ماتم کرے، اگر مرغانِ ہوائی فغاں سنج ہوں اور سمندروں سے مچھلیاں غم کرنے کے لیے اُچھل پڑیں ، جب بھی اس کا ماتم ختم نہ ہوگا،کیونکہ تمہارا ماتم تمام دنیا کا ماتم ہے اور چراغ کے بجھنے کا رونا چراغ پر رونا نہیں ہے بلکہ گھر کی تاریکی پر رونا ہے … تم دوسروں کی بیداری کے افسانے سن کر ترانہ سنج مدح و ثنا ہوتے ہو مگر اپنے بخت ِ خفتہ و طالع گم گشتہ کو نہیں ڈھونڈتے کہ وہ کہاں گم ہے؟ فآه ہ، آه ہ، ثم آہ ه ، علی مافرطتم في جنب اﷲ! درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست زبخت من خبر آرید تاکجا خفت است؟ ’’رات کا طویل ہونا اور میرا جاگتے رہنا اس کی کوئی حیثیت نہیں ، میری قسمت کی خبر لاؤ کہ وہ کہاں سوگئی ہے؟‘‘ (ماخوذ از کتاب ’حقیقتِ حج‘ از مولانا ابو الکلام آزاد: ص18تا 32)