کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 93
رکعت میں ) اسی طرح کر۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس موقع پرمذکورہ طریقۂ نماز کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص نماز اطمینان سے نہیں پڑھتا تھا اور باربار کہنے کے باوجود اس کی نماز اطمینان سے خالی تھی۔ نہ قیام و قراء ت میں اطمینان تھا،نہ رکوع اور قومے میں اطمینان تھا،نہ سجدوں میں اور ان کے درمیان وقفے میں اطمینان تھا۔ آپ نے ایسی نماز کو تین مرتبہ کالعدم قرار دیا (تو نے نماز ہی نہیں پڑھی)حالانکہ وہ بار بار نماز پڑھ کر آرہا تھا لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ تو نے نماز ہی نہیں پڑھی۔
اس سے معلوم ہواکہ جس نماز میں سنت ِرسول کے مطابق اطمینان اور اعتدالِ ارکان نہیں ہوگا، وہ نماز، نماز ہی نہیں ، محض اُٹھک بیٹھے ہے یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا ہے۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاتجزي صلاۃ الرجل حتی یقیم ظھرہ في الرکوع والسجود))
’’آدمی کی نماز اس وقت تک کافی نہیں ہوتی جب تک وہ اپنی پیٹھ رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی نہ کرے۔‘‘(سنن ابی داؤد:۸۵۵)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے، ہم اس کاضروری خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔ امام صاحب یہ حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں :
’’ھذا الحدیث نص صریح في وجوب الاعتدال، فإذا وجب الاعتدال لإتمام الرکوع والسجود فالطمانینۃ فیھما أوجب‘‘
’’یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ہے کہ َارکان میں اعتدال واجب ہے اور جب رکوع اور سجود کے پورا کرنے کے لیے اعتدال واجب ہے تو رکوع اور سجدے کو اطمینان کے ساتھ کرنا زیادہ بڑا واجب ہے۔‘‘
پھر امام صاحب حدیث کے الفاظ کہ وہ ’’اپنی پیٹھ رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی کرے‘‘ کامفہوم واضح کرتے ہیں :
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ جب رکوع سے سراُٹھائے اور اسی طرح جب سجدے سے سراٹھائے تو اپنی پیٹھ کو بالکل سیدھا کرلے، اس لیے کہ پیٹھ کا سیدھا کرنا، رکوع اور سجدے کو پورا کرنے