کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 9
تناظر میں دیکھیں ۔‘‘ (روزنامہ’پاکستان‘: ۲۷/ ستمبر۲۰۱۰ئ) بین المذاہب ہم آہنگی کا مسخ شدہ اوربے ہودہ تصور ہے جو افضال ریحان جیسے مغرب زدہ افراد نے اپنے ناپختہ ذہنوں میں پال رکھا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عافیہ صدیقی کو ملنے والی غیر منصفانہ سزا کے خلاف جائز احتجاج سے ’بین المذاہب دوری‘ کا سوال کیونکر پیدا ہوتا ہے۔ کیا امریکی عدالت نے یہ سزا عیسائیت کی تعلیمات کی روشنی میں دی ہے؟ کیا کیتھولک اور پرونسٹنٹ چرچ نے اس سزا کی حمایت کی ہے؟ کیا احتجاج کرنے والوں نے امریکی عوام کے مذہب کے خلاف کوئی تحریک برپا کرنے کا اعلان کیا ہے؟ مزید برآں یہ محض پاکستان کی ’راسخ العقیدہ مذہبی تنظیموں ‘ کا احتجاج نہیں ہے، جیساکہ افضال نے غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ پاکستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کی آواز ہے۔ پھر یہ ’راسخ العقیدہ‘ ہونے پر طنز کیامعنی رکھتا ہے؟ کیا راسخ العقیدہ مسلمان ہونا کوئی عیب ہے؟ کیامسلمانوں کو فاسخ العقیدہ یافاسد العقیدہ ہونا چاہئے؟ ؎ بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو!! عافیہ صدیقی نے امریکی عدالت میں دیے گئے بیان میں ’اعترافِ جرم‘ ہرگز نہیں کیا مگر افضال ریحان نے اپنے تخیل کے زور پر یہ نتیجہ خود ہی برآمد کرلیا ہے۔ مزید برآں اس سیکولر کالم نگار کے قلب پر یہ القا بھی ہوا ہے کہ عافیہ صدیقی کو اپنے کیے پر ’پچھتاوا‘ ہے اور افضال کے نزدیک ان کا یہ جذبہ’قابل التفات‘ ہے۔اس کے دلائل کے تارِعنکبوت کا تانا بانا ملاحظہ کیجئے اور اس کے فسادہ زدہ ذہن کی رسائی کی داد بھی دیجئے : ’’عافیہ صدیقی نے امریکی عدالت کے سامنے بھی بیان کیا ہے کہ ’’میں نے صدر اوبامہ کو یہ پیغام بھجوانے کی کوشش کی تھی کہ میں طالبان کے ساتھ قیامِ امن میں مدد دینے کا کردار انجام دیناچاہتی ہوں ۔‘‘ ظاہر ہے، اتنا حساس کردار ادا کرنے کا داعیہ وہ اسی وجہ سے رکھتی ہیں کہ ان کا القاعدہ اور طالبان سے بہت قریبی تعلق رہا ہے اور اگر اسی تعلق کے زیراثر اگر اُنہوں نے کوئی منفی رول کیا بھی تھا تو اب مثبت رول کا موقع دیا جانا چاہئے تھا۔ کسی گناہ پراس کے پچھتاوے سے بڑی کوئی سزا نہیں ہے۔‘‘ [روزنامہ ’پاکستان‘: ۲۷/ ستمبر۲۰۱۰ئ] ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی عدالت سے سزا سنانے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جو بیان فوری