کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 82
کرے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ بدلہ دے اور جو غیر ارادی طو رپر شکار کرے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ بدلہ نہ دے۔ دین اسلام سہولت اور آسانی کا دین ہے۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی انسان بھول کر یا لا علمی میں ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب کرلے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں اور نہ اس کا حج و عمرہ فاسد ہوتا ہے جیسا کہ جماع سے فاسد ہوجاتا ہے شرعی دلائل اسی کے متقاضی ہیں جس کا ہم اشارہ کرآئے ہیں ۔(ص:۵۲۲)
محرم چھتری استعمال کرسکتا ہے اور بیلٹ باندھ سکتا ہے
11. سوال:محرم کے لیے چھتری کا استعمال کیسا ہے؟اور ایسی بیلٹ باندھنے کا کیا حکم ہے جب کہ اس پر سلائی کی گئی ہوتی ہے؟
جواب:سورج کی تپش سے بچنے کے لیے سر پر چھتری تاننے میں کوئی حرج نہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے محرم مرد کے سر ڈھانپنے کی ممانعت میں نہیں آتا، کیونکہ یہ سر کو ڈھانپنا نہیں ہے بلکہ تپش اور گرمی سے بچاؤ کے لیے سایہ کرنا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ ان دونوں میں سے ایک نے آپ کے اونٹ کی مہار تھام رکھی تھی اور دوسرے نے گرمی سے بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپڑا تانا ہوتا تھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرئہ عقبہ کی رمی کی اور دوسری روایت میں ہے کہ دوسرے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرمی سے بچانے کے لیے سر پرکپڑا اُٹھایا ہوا تھا۔ (رقم الحدیث:۱۲۹۸)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِحرام کھولنے سے پہلے احرام کی حالت میں کپڑے کو چھتری کے طور پر استعمال کیا تھا۔
اسی طرح اِزار پربیلٹ باندھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ، سوال میں درج ’’اس پر سلائی کی گئی ہوتی ہے‘‘ والے نکتے کی وضاحت یہ ہے کہ یہ بعض عوام کا اپنا خیال ہے جو اُنہوں نے علماء کے اس قول کو ’’محرم پر سلا ہوا کپڑا حرام ہے۔‘‘ سے اَخذ کیا ہے۔ اس سے اُنہوں نے یہ مفہوم لیا کہ کوئی بھی سلی ہوئی چیز پہننا حرام ہے۔ حالانکہ حقیقت اس طرح نہیں ہے بلکہ علماے کرام کے ’سلے ہوئے کپڑوں ‘ سے مراد وہ تیار شدہ کپڑا ہے جو باقاعدہ کسی عضو کے برابر تیار کیا جاتا ہے اور اسے معمول کے مطابق پہنا جاتا ہے جیسے قمیص اور شلوار وغیرہ، لہٰذا اہل علم کے قول