کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 8
سال بنتی ہے، مگر عدالت اُسے ۸۶ سال کی سزا سنا دیتی ہے تو یہ معاملہ انصاف کے تقاضوں سے ماورا ہوجاتا ہے۔ جرم اور سزا کے درمیان عدمِ تناسب کو ’ناانصافی‘ قرار دینے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، تو اس طرح کی سزا پر اگر پاکستانی اخبارات نے ’انصاف کا خون‘ کی سرخیاں لگائی ہیں ، تو اس پرتنقید کرنے والے کو بے حمیت اور قوم فروش نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے؟
عافیہ صدیقی پرفردِ جرم اور اس کی سزا کا موازنہ کیا جائے تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ امریکی جج کے ذہن میں ’ملزمہ‘ کا کوئی ایسا جرم بھی تھا جس کی وجہ سے وہ اُسے نشانِ عبرت بنانے کا تہیہ کرچکاتھا۔ اگر یہ ’جرمِ مسلمانی‘ نہیں تھا، تو افضال ریحان پھر بتائے، وہ آخر کون سا گھناؤنا جرم تھا جس کی عافیہ صدیقی کو اتنی طویل قید کی سزا سنائی گئی ہے؟
افضال ریحان کے مذکورہ بالا بیان کا آخری حصہ بے ہودہ منطق طرازی اور سطحی جنوں خیزی کی واضح مثال ہے۔ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ ۱۱/۹ کے بعد امریکہ میں بسنے والے ہزاروں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ اَب بھی ہزاروں مسلمان ایف بی آئی کے تفتیشی مراکز میں ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ وہ کون سے اعلیٰ عہدے ہیں جن پر ’بیشتر‘ مسلمان فائز ہیں ؟ کیا اس بات سے اِنکار کیا جاسکتا ہے کہ گوانتا نامو بے میں قید سینکڑوں مسلمانوں پر اب تک کوئی جرم ثابت نہیں کیا جاسکا مگر پھر بھی وہ قید میں ہیں ۔ فرض کیجئے اگر امریکہ میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جس کا دعویٰ افضال ریحان نے کیا ہے ، تو کیا عافیہ صدیقی کو دی جانے والی اس افسوس ناک سزا کا یہی جواز کافی ہے؟ کیالاکھوں اَفراد کے سزا سے بچ رہنے کے معاملے کو کسی ایک فرد کی سزا کے لیے جواز بنایا جاسکتاہے؟ کیا یہی عقلی استدلال ہے جس پر یہ بزعم خویش عقلیت پسند بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں ؟ ؎ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو!
افضال ریحان مزید لکھتا ہے:
’’ہماری وہ راسخ العقیدہ مذہبی تنظیمیں جو اس نوع کے واقعات کو بنیاد بنا کر بین المذاہب دوری اور نفرت پیدا کرنے لگتی ہیں ، وہ بھی اپنا اَنداز بدلیں ۔ درپیش واقعات کو ان کے محدود