کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 75
ہوجائیں تو اس وقت تک اس شخص کا اسلام مکمل نہیں ہوتا، جب تک وہ حج نہ کرلے اورجس کے حق میں حج کے وجوب کی شرائط پوری ہوجائیں ، اس کے لیے حج کو مؤخر کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکام کو فوری بجا لانا چاہئے، اس بنا پر کہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ آئندہ کیا پیش آنے والا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ تنگدست ہوجائے یا حالت مرض میں مبتلا ہو جائے یا مرجائے۔ماں باپ کے لئے اپنے بیٹوں کو جب کہ ان پر حج کی شرائط پوری ہورہی ہوں اور دین واَخلاق کے اعتبار سے اُنہیں شریک ِسفر بھی میسر ہوں ، جائز نہیں کہ وہ اُنہیں فریضۂ حج سے روکیں اور نہ بیٹوں کے لیے جائزہے کہ ان پر حج فرض ہوجانے کے بعد اپنے ماں باپ کی اس مسئلہ میں اطاعت کریں ،کیونکہ((لاطاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق)) ’’خالق کی معصیت میں مخلوق کی اِطاعت جائز نہیں ‘‘سوائے اس کے کہ والدین کوئی شرعی عذر پیش کریں تو اس عذر کے زائل ہونے تک حج میں تاخیرکی جاسکتی ہے۔ ( ص۵۰۰،۵۰۱)
قرض دار کا حج
3.سوال:کیا مقروض شخص پر حج کرنا لازمی ہے؟
جواب:جب انسان پر اس کے پاس موجود مال کے برابر ہی قرض ہو تو اُس پر حج واجب نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ نے حج اسکی استطاعت رکھنے والے پر ہی فرض کیا ہے ، فرمانِ ربانی ہے:
﴿وَللّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آلِ عمران:۹۷)
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس کے گھرتک جانے کی استطاعت رکھے وہ حج کرے۔‘‘
اور جس کا قرض اس کے پاس موجودہ مال پر حاوی ہوجائے، گویا وہ حج کی استطاعت والا نہیں ہے۔ اس صورت میں پہلے وہ اپنا قرض ادا کرے پھر اس کے لیے آسانی ہو تو حج کرے۔ہاں اگر قرض اس کے پاس موجود مال سے اتنا کم ہے کہ بچے ہوئے مال سے حج کرسکتا ہے تو وہ اپنا قرض اُتار کر حج کرے، چاہے وہ حج فرض ہو یا نفل۔ اگر فرض حج ہے تو اُسے ادا کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور نفلی حج میں اسے اختیار ہے اگر ادا کرنا چاہے تو کرے، نہ کرنا چاہے تو اس پر گناہ نہیں ہے۔ (ص۵۰۱)