کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 74
فرماتے ہیں :﴿قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْ لَہُمْ مَا قَدْ سَلَفَ﴾ (الانفال:۳۸)
’’آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ لوگ باز آ جائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘
جس سے ان جیسے گناہ سرزد ہو گئے ہوں چاہیے کہ وہ اللہ سے سچی توبہ کر لے اور اللہ کی اِطاعت میں ہمیشگی کرے اور اَعمال صالحہ کی کثرت سے اللہ کا تقرب حاصل کرے توبہ اور استغفار کثرت سے کرے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰهِ﴾
’’(میرے بارے میں )کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو جاؤ۔‘‘
یہ آیت توبہ کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی پس ہر گناہ جس سے بندہ توبہ کرے خواہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کا گناہ ہی کیوں نہ ہو،اللہ اس کی توبہ ضرور قبول کرتا ہے۔ واللّٰه الہادي إلی سواء الصراط (فتاویٰ ارکان الاسلام،ص ۴۹۹)
اِستطاعت کے باوجود حج کرنے میں تاخیر کرنا
2.سوال: اکثر طور پر بعض مسلمان خاص طور پر نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ فریضۂ حج کی اَدائیگی کی استطاعت اور وسائل پورے ہونے کے باوجود سستی اور تاخیر کرتے ہیں اور پھر وہ آخرکار دیگر مصروفیات کی وجہ سے معذور ہوجاتے ہیں ۔ان کے بارے میں آپ کی شرعی رائے کیا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ اپنے بیٹوں کو کوئی گزند پہنچنے کے ڈر سے فریضۂ حج کی اَدائیگی سے روک دیتے ہیں یا پھریوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں جب کہ ان پر فریضۂ حج کی شرائط پوری ہورہی ہوتی ہیں ۔ والدین کے اس فعل کا کیا حکم ہے اور اس مسئلہ میں بیٹوں کا ان کی اِطاعت کرنا کیسا ہے؟
جواب:یہ بات معروف ہے کہ حج اسلام کے اَرکان میں سے ایک رکن اور اس کی عظیم بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ لہٰذا جب کسی کے حق میں حج کے وجوب کی شرائط پوری