کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 72
زیادہ سے زیا دہ فائدہ پہنچانے کی سعی کرے تا کہ انسانی معاشرے میں ہمدردی، غمگساری اورباہمی تعاون کی رِیت بتدریج ترقی پائے:﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبَرِّ وَالتَّقْوی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی ٰالاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾(المائدۃ:۲)
’’اور نیکی اورپرہیزگا ری کے لیے تعاون کرو، زیادتی اور سرکشی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘
6. مال کی فروانی کے با وجود بھی ذاتی ضروریات پر انتہائی مناسب خرچ کرنا چا ہیے۔ اور ضرورت سے زائد اَموال کو مفاداتِ عامہ ، فلاحِ انسا نیت، اور فی سبیل اللہ کی مَدمیں خرچ کر نا چا ہیے: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾(البقرۃ:۲۱۹)
’’ آپ سے سول کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو کہہ دیجیے کہ زائد اموال۔ ‘‘
7. رزقِ حلال کما نا بہت بڑی نیکی ہے اور اِس نیکی کو اسلام کی معا شی ہدایات کے مطا بق بجا لا ناچاہیے۔اپنی تجا رتی اور دفتری زندگی کو صدق واما نت اور عہدو وَفاجیسے اَوصافِ حمیدہ سے مزین کرنا چا ہیے۔
8. حلال و حرام کا مسئلہ ہمیشہ مد نظر رکھنا چا ہیے،کیو نکہ یہ اسلا می معیشت میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
9. اپنا پیٹ پالنے کے لیے کسی دوسرے کا نوالہ چھیننے کی کوئی تدبیرو عمل ہماری معا شی جدوجہد کا حصہ نہیں ہو ناچاہیے۔
10. ساری معا شی جدوجہد برو ئے کارلا کر بھی توکل خالق ومالک پر کرنا چا ہیے،کیو نکہ
﴿ اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْا الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنِ ﴾(الذاریات:۵۸)
’’ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘
﴿ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ رِزْقُہَا﴾(ہود:۶)
’’زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ۔‘‘
اور﴿ وَفِیْ السَّمَاء رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ﴾(الذاریات:۲۲)
’’اور تمھاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘
٭ ٭ ٭