کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 71
1. مسلما ن کو انتھک محنتی اورجفا کش ہو ناچاہیے نہ کہ سست اور کا ہل،کیو نکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سستی سے پنا ہ ما نگی ہے۔(صحیح بخاری:۶۳۶۹)
2. اس عا رضی جہانِ ر نگ وبو میں ہر انسان کو زندگی کے سا نس جینے کے لیے اپنی مدد آپ کے اُصول کے تحت کوئی نہ کوئی پیشہ وروزگار اختیار کرنا چا ہیے، تاکہ دوسروں کے سا منے دست دراز کرنے کی بجا ئے کمزوروں کی دستگیری کی جائے ۔
3. ہر انسان کو اپنی حیثیت،استعداد اور وسائل کو بھرپور بروئے کار لا ناچا ہیے تاکہ انسانی معاشرہ سے کم ہمتی کا خاتمہ ہو، جواں جذبے پروان چڑھیں اور اجتما عی استعدادِ کار میں اضافہ ہو۔﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلأِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾(النجم:۳۹)’’ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے کو شش کی۔ ‘‘ لہٰذامجموعی محنت زیادہ ہوگی توثمرات بھی بے پناہ ہوں گے اور غربت وافلا س کی جگہ ترقی و خوشحا لی کا دور دورہ ہو گا۔
4. فرزندانِ اسلام کو ذریعۂ معاش اختیا ر کرتے ہو ئے جاہلی معا شی تقسیم کو آڑ نہیں بناناچاہیے یعنی پیشوں کی اونچ نیچ میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ اُسوئہ رسول کو معیار سمجھنا چا ہیے (کہیں غلہ بانی ہے اور کہیں تجا رت کی نگرانی) پیشوں کی طبقاتی تقسیم ہر دور میں جاہلی معاشروں کی شناخت و امتیاز رہی ہے، جیسا کہ مشرکین مکہ بھی کہتے تھے:
﴿قَالُوْا اَنُؤمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الاَرْذَلُوْنَ٭ قَالَ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ٭ إنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ٭ وَمَا اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ (الشعرائ:۱۱۱۔۱۱۴)
’’کافروں نے کہا :کیا ہم ایمان لا ئیں تجھ پر اور تیری پیروی کی ہے رذیل لوگوں نے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : میں کیا جا نوں کہ ان کا پیشہ کیا ہے، اِس کا حساب تو میرے رب پر ہے اگر تم سمجھو، اور میں ایما ن والوں کو نکا ل دینے والا نہیں ہوں ۔‘‘
یہی معا شی طبقاتی تقسیم ہندو معا شرے میں عروج پر ہے جب کہ اسلام میں تو ((الکاسب حبیبُ اللّٰه))کی تعلیم و تربیت دی گئی ہے۔ لہٰذا فا رغ رہ کر وقت اور صلا حیتوں کو ضا ئع کرنے کی بجائے کسی بھی صورت میدانِ عمل میں اُترنا چا ہیے۔
5. انسان ذاتی مفا د کے سا تھ ساتھ اجتما عی مفا د کو بھی مدنظر رکھے اور دوسرے لو گوں کو بھی