کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 7
اپنے کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نہایت افسوس ناک ہے اور قابل مذمت ہیں ۔ اُس کا کالم فکر ِخبیثہ کا شاخسانہ ہے۔ اُس نے اپنے کالم میں عافیہ صدیقی کے ’جرم کی نوعیت‘ اور اس کو ملنے والی ۸۶ سال کی قید کی سزا کے ’جواز‘ کے متعلق تو کچھ تحریر نہیں کیا، البتہ اُسے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ پاکستان کے اخبارات نے امریکی عدالت کے اس فیصلے کے متعلق جو سرخیاں جمائی ہیں ، وہ ’خوش آئند‘ نہیں ہیں ۔ اس کے خیال میں یہ سرخیاں ’بین المذاہب دوری‘ کا باعث بنیں گی۔افضال ریحان لکھتا ہے :
’’اگر ہم امریکی وفاقی کورٹ کے عدالتی فیصلے پر اس نوع کی سرخیاں جمائیں گے کہ ’امریکی عدالت میں انصاف کا خون‘ یا یہ کہہ کر ’’پاکستان کی بیٹی پوری زندگی جیل میں گزارے گی۔‘‘ تو اُسے کسی طور پر خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس پر مستزاد یہ شعر تحریر فرمائے جارہے ہیں کہ ’’شہادت گہہ ِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے، لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا!‘‘ اس سے ہم قوم کے سامنے کیا اِبلاغ کررہے ہیں ، یہ کہ عافیہ صدیقی کو جو سزا سنائی گئی ہے ، یہ صرف اُس وجہ سے ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، ان کا کوئی اورجرم نہیں ہے، بس مسلمانی ہی جرم ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس امریکہ میں جو ستر اَسی لاکھ مسلمان بس رہے ہیں ، بیشتر اعلیٰ عہدوں پرفائز ہیں ، اُنہیں وہ تمامتر حقوق حاصل ہیں جو شاید اُن کے تمام اسلامی ممالک میں بھی حاصل نہیں تو کیاوہ سب سچے مسلمان نہیں ہیں ؟‘‘
(روزنامہ ’پاکستان‘: ۲۷/ ستمبر۲۰۱۰ء)
ہم پوچھتے ہیں کہ امریکی عدالت کے اس فیصلے کو ’انصاف کا خون‘ قرار نہ دیا جائے تو کیا اسے ’انصاف کابول بالا‘ قرار دیا جائے؟ امریکہ ان ممالک میں سے ہے جہاں بعض ریاستوں (صوبوں ) نے قتل جیسے گھناؤنے جرم کے لیے بھی سزاے موت منسوخ کردی ہے کیونکہ ان کے خیال میں موت کی سزا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکہ میں بھی قانون دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے عافیہ صدیقی کو دی جانے والی سزا پر حیرت اور بیزاری کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکی میڈیا بتا رہا ہے کہ امریکہ میں آج تک کسی بھی عورت کو کسی بھی جرم میں اتنی طویل قید کی سزا نہیں سنائی گئی۔عافیہ صدیقی تو بے گناہ ہے، مگر استغاثہ کی طرف سے اس پر جو فردِ جرم عائد کی گئی ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو یہ سزا جرم کے تناسب سے ہزار گناہ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کسی جرم کی سزا اگر ایک دو