کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 67
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((وأُحلَّتْ لي الغنائم)) (صحیح بخاری:۳۱۲۲)
’’اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
مالِ غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مقرر تھا جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے :
﴿ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأنَّ للّٰهِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبٰی﴾ (الانفال:۴۱)
’’جان لو کہ جو کچھ تمھیں ما لِ غنیمت سے ملے تو اللہ اور اُس کے رسول کا اُس میں سے پانچواں حصہ ہے۔ ‘‘
مالِ غنیمت میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپانچواں حصہ بطور ِ مالِ خمس ملتا تھا جو بیت المال کا حصہ ہو تا تھا مگر اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرو ریا ت بھی پوری کی جا تیں تھیں ۔
رسول اللہ کے لیے تین وصایا تھے: بنو نظیر،خیبراور باغِ فدک۔(صحیح بخاری: ۴۰۳۳، ۴۲۴۰) اِس میں بنو نظیر کامال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی ضروریات، اہل خانہ کا خرچ،مہمانوں کی ضیا فت، اور مجاہدین کے ہتھیاروں اور سواریوں پر خرچ ہو تا تھا اور فدک کی پیداوار محتاج مسافروں اور مساکین وغربا کے لیے مختص تھی اورخیبر کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم تھی:دو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اور ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال پر خرچ ہو تا تھااور خیبر کی زمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو نصف پیداوار لینے کے معاہدہ پر دے رکھی تھی۔
یہ جا ئیداد اور زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اُن کی آمدن کا حصہ ہی تھی جو بعد میں وصیت کے مطا بق تقسیم نہیں ہو ئی تھی بلکہ بیت المال میں ہی شامل ہو گئی اور اہل بیت کا گذراَوقات بیت المال کے وظیفہ سے ہی ہوتا رہا۔
7.مالِ فے
مالِ فے ایسے مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑائی کئے بغیر حا صل ہو جا ئے اوریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی خا ص تھا۔ اور آپ کو اختیار بھی تھا کہ اس میں سے جس کوچاہیں دیں ۔ باغِ فدک جو کہ بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے عطا کیاتھا، بطورِ مالِ فئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ آپ اس میں سے کچھ حصہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے تھے اور کچھ حصہ غربا اورمساکین میں تقسیم کر دیتے تھے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔