کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 66
(( ما نفعني مالُ أحدٍ قط ما نفعني مال أبي بکر)) (سنن ترمذی:۳۶۶۱)
’’ مجھے اتنا کسی کے مال نے فا ئدہ نہیں دیا جتنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ما ل نے دیا ہے۔ ‘‘
5.اَنصارکی طرف سے اِعانت
انصارِ مدینہ نے بھی مکی صحا بہ کی طرح دل و جان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور خدمت کی۔ ہجرت کے بعد سب سے پہلی میز بانی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنا عرصہ بھی اُن کے ہا ں قیام فرمایا، آپ کی ضروریات پورا کرنے کا شرف اُنہی کے نصیب میں آیا۔
بنو فزارہ کے ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک اونٹنی پیش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قبول کیااور اُسے تحفے میں کچھ دے دیا تو وہ شخص نا راض ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا کہ’’ آج کے بعد میں قریش، انصار اور دوس قبیلہ کے علاوہ کسی سے کوئی تحفہ نہیں لوں گا۔‘‘ (الادب المفرد،ص۱۸)
انصار پیشہ کے لحا ظ سے زراعت سے منسلک تھے۔ وہ اپنے کھیتوں (کھجو روں کے باغات) میں سے کسی ایک درخت کو نشان لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کردیتے تھے جس کا پھل آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جا تا۔ (خطباتِ بہاولپور،ص۱۸)
کبھی کبھا ر تو مہینہ بھر آپ کے گھر میں چولہا نہ چلتا تھا۔ آپ صرف پا نی اور کھجو ر تنا ول فرما تے تھے اور اِس طرح گزارا ہو جاتا(صحیح مسلم:۲۹۷۲) اور اللہ تعا لیٰ کا شکر بجا لاتے۔بعض انصارجو آپ ہمسائے تھے، وہ آپ کی خدمت میں دودھ پیش کیا کرتے تھے۔ لہٰذا قناعت شعار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے یہ بھی ایک منا سب ذریعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ہی سبب بنا یا تھا۔
6.مالِ غنیمت
چونکہ جہا د فی سبیل ا للہ کا ایک ثمرہ ما لِ غنیمت بھی ہو تاہے۔ اگرچہ پہلی اُمتوں کے لیے مالِ غنیمت حلال نہیں تھا،لیکن اُمت ِ محمدیہ پر اللہ تعا لیٰ کی خاص عنا یت ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ان کے لئے مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا۔