کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 62
چند ایسی خصو صیا ت پیدا ہو جاتی ہیں جو عا م انسا نوں میں نہیں ہوتیں ۔ بکر یو ں کا چرواہا جفاکش، نرم دل اور بر د با ر ہو تا ہے ۔ بکر ی فطرتاً تیز اور طبعاً نہا یت کمزور ہو تی ہے۔اگر ڈھیلا چھوڑ دیا جا ئے تو کہیں سے کہیں نکل جا ئے اور غصہ میں آکر لا ٹھی مار یں تو جوڑ بند ٹو ٹ جا تے ہیں ۔ لہٰذا اِس کے چرواہے کو بڑی سمجھ داری، ہو شیاری اور بردباری سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہدا یت سے خا لی انسا ن، بکری سے کہیں زیا دہ آوارہ اور ناصح کی نصیحت سے دور بھا گنے والا ہو تا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے انسا نوں کو راہِ را ست پر لا نے کے لیے بکریوں کو سنبھالنے کی مانند کام کرنا پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دس بارہ برس کے ہو ئے تو بکریاں چرا نا شروع کیں ۔یہ اِنسا نیت کی گلہ با نی کا دیبا چہ تھا ۔حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ((ما من نبيٍ إلا وقد رعی الغنم قیل وأنت یا رسول اللّٰه؟ قال:وأنا،أنا رعیتھا لأھل مکۃ بقراریط)) (الطبقات الکبرٰی:۱/۱۲۲) ’’کوئی نبی ایسے مبعوث نہیں ہوئے جنہوں نے بکریا ں نہ چرا ئی ہوں ۔دریا فت کیا گیا: یارسول اللہ! آپ نے بھی؟ فرمایا:ہا ں میں نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چندقراریط(قیراط) پر چرائیں تھیں ۔‘‘ مندرجہ بالا حوالہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مویشی جانوروں کے چروانے کا پیشہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائے رکھا جو کہ عرب معاشرے میں ایک قابل ذکر پیشہ تھا۔ 3.تجا رت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوان ہوئے توآپ نے تجا رت کو معاش کاذریعہ بنایا۔ اِس پیشہ کے انتخاب کی وجوہ میں سے نما یا ں وجہ یہ تھی کہ آپ کے خا ندان بنو ہا شم اور قریشِ مکہ تجا رت کے پیشہ سے منسلک تھے جس کاذکر قرآن مجید سورۃ القریش میں موجود ہے: ﴿ لِایْلٰفِ قُرَیْشٍ٭ اِلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ٭ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ٭ الَّذِیْ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّـنْ خَوْفٍ﴾ (سورۃ القریش) ’’قریش کو اُلفت دلا نے کے واسطے، اُلفت گرمی اور سردی کے قافلوں کے لیے،پس اُنہیں چاہیے کہ اِس گھر کے ربّ کی عبادت کریں جس نے اُنہیں بھوک میں بھی کھلا یااور اُنہیں خوف