کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 61
وتعین علی نوائب الحق)) (صحیح بخاری:۴) ’’آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزوروں کابوجھ اُٹھا تے ہیں اورجن کے پاس کچھ نہیں ہو تا،کما کردیتے ہیں ،اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور آپ حق داروں کے ساتھ مشکلات میں مدد کرتے ہیں ۔ ‘‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اِس تسلی سے پتہ چلتا ہے کہ آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی سے پہلے بھی صاحب ِروزگار تھے اور اپنے مال سے دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے۔ البتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے مال ودولت نے آپ کی بہت ساری معاشی پریشانیوں کو کم کیا،اور اِس نعمت کا اظہا ر اللہ تعالیٰ نے یوں فرما یا:﴿وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَأغْنٰی﴾ (الضحی:۸) ’’اور ہم نے آپ کو تنگ دست پا یا توآپ کو غنی کر دیا۔‘‘ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام اَدوار کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل ذرائع آمدن سامنے آتے ہیں جن کو اِس مضمون میں اَحسن انداز میں پیش کرنے کی کو شش کی گئی ہے: 1.والدین کی وراثت سے حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد عبداللہ بن عبدالمطلب کی طرف سے وراثت میں کوئی جائیداد یا مال و دولت نہیں ملا، سوائے ایک مکان کے جو آپ کے چچا زاد عقیل کے قبضہ میں تھا اور فتح مکہ کے مو قع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لا ئے توآپ سے پو چھا گیاکہ آپ کہاں رہا ئش فرما ئیں گے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ’’میں عقیل کے مکان میں رہنا چا ہتا ہوں ،عقیل سے پو چھو کیاوہ ہمیں اِجازت دیتا ہے۔ ‘‘ (نیل الأوطار:۱/۲۱) لیکن آپ نے پھر اُمّ ہا نی رضی اللہ عنہا کے گھر سکونت فرما ئی۔(صحیح بخاری:۴۲۹۲) اِس متاعِ قلیل کے علاوہ کتب ِ اَحادیث وسیرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والے ورثے کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ 2.گلہ با نی اللہ تعالیٰ کی اپنے انبیا ومرسلین کے لئے عجب حکمت رہی ہے کہ تقریباً تما م انبیاے کرام علیہم السلام سے بکریا ں چروائیں ۔ اس کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ بکریاں چرا نے والے میں