کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 60
صرف خود اپنی معاشی حالت بہتر کی بلکہ ہمیشہ اپنے اَصحاب کو بھی یہی سبق دیا کہ وہ حلال اور باعزت روزگار اختیار کریں ، کیو نکہ اِس کی اللہ تعا لیٰ کے ہا ں بہت قدرو منزلت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ما أکل أحد طعامًا قطُّ خیر من أن یأکل من عمل یدہ وإن نبي اللّٰه داؤد علیہ السلام کان یأکل من عمل یدہ)) (صحیح بخاری: ۲۰۷۲) ’’کوئی بندہ ایسا کھانا نہیں کھاتا جو اپنے ہاتھ کی کما ئی سے بہتر ہو، اور حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہا تھ کی کما ئی سے کھا تے تھے۔‘ ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ معا ش کیا تھا؟اس مو ضو ع سے ہمارے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ سیرۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جا نے والی کتب کا ذخیرہ کھنگال لیں ، آپ کو اس عنوان پر مستقل بحث نہ ملے گئی ۔غالباً اس کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِ ن کی عقیدت کا وہ درجہ ہے جہا ں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذریعۂ معا ش کی ضرورت ہی سے بالاتر تصور کرتے ہیں ، حالا نکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال اور باعزت ذریعۂ معاش اختیا ر کرکے اپنی اُمت کو یہ تعلیم دی کہ وہ حلا ل اور باعزت ذریعۂ معا ش اپنا کر ہی اپنی اورزیر کفالت اَفراد کی معا شی ضروریا ت کوپو را کیا جائے۔منصب ِ نبوت پر سرفراز ہو نے سے قبل گلہ با نی اور کچھ عرصہ بعد تک آپ نے تجا رت کو ذریعۂ معا ش بنا یا ۔ اس سلسلہ میں آپ نے متعدد تجا رتی اَسفار بھی فرما ئے ۔ جب اُمّ المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں تو اُن کی تمام تردولت اور تجارت بھی آپ کے پا س آئی اور یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشی تفکرات کو کم کر دیا اورآپ دل جمعی کے ساتھ دعوت میں مگن رہے۔کتب ِسیرۃ میں کہیں نہیں ملتا کہ آپ کبھی کسی پر بوجھ بن کر رہے ہوں بلکہ آپ ہمیشہ سے خود کفیل رہے ہیں ۔ بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعدآپ کی معاشی زندگی بہتر ہو ئی اور اِس سے قبل آپ کے پا س کچھ مال ودولت نہ تھا تو یہ خیال غلط ہے، کیونکہ نزولِ وحی کے مو قع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرما تی ہیں : (( إنک لتصل الرحم وتحمل الکل،وتکسب المعدوم وتقري الضیف